87467 | ہبہ اور صدقہ کے مسائل | کئی لوگوں کو مشترکہ طور پرکوئی چیز ہبہ کرنے کا بیان |
سوال
میرےوالد صاحب فوت ہوئے ، ان کے چھ بیٹے، تین بیٹیاں اور بیوی موجود ہے، ابو نے پانچ بیٹوں اور دو بیٹیوں کی شادی اپنی زندگی میں کروائی، جس کا خرچہ والد صاحب نے خودکیاتھا اور ہر ایک کو کمرہ بھی بنا کر دیا، ابونے شہر میں بارہ مرلے کا ایک پلاٹ لیا تھا، بڑے بھائی نے اس کےپانچ مرلے پراپنی ذاتی رقم سے مکان بنایا، یہ چونکہ شہر کی زمین تھی، اسی لیے اس کے ایک مرلہ کی قیمت سات لاکھ روپیہ تھی، اب اس بھائی نےپانچ مرلہ پر مکان بنا لیا۔ اس کے علاوہ جو سات مرے تھے وہ ابو نے بیچ دئیے۔ کیونکہ ابھی ان کے دو بچےباقی تھے، ابو جب فوت ہوئے تو ان کی ملکیت میں چالیس لاکھ روپیہ موجود تھا، زندگی میں ابو کی ایک مرتبہ طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو انہوں نے کہا تھا کہ بڑے بھائی کو کچھ نہ کہنا، یعنی مکان میں بیٹھے رہنے دینا، لیکن جب ابو تندرست ہوتے تو کہتے تھے کہ یہ پلاٹ سب میں تقسیم ہو گا، اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا یہ پلاٹ سب میں تقسیم ہو گا یا صرف بڑے بھائی کی ملکیت شمار ہو گا؟ جبکہ ابو نے ان کو کوئی ہبہ نامہ نہیں دیا تھا اور اس پانچ مرلے پلاٹ کی قیمت پینتیس لاکھ روپیہ ہے، نیز بقیہ چالیس لاکھ روپے کا کیا حکم ہو گا؟ کیا یہ سب ورثاء میں تقسیم ہو گا یا یہ رقم میری اور بہن کی شادی کے اخراجات میں صرف کی جائے گی؟ اور اس میں والدہ کا کتنا حصہ ہو گا؟
وضاحت: سائل نے بتایا کہ والد صاحب نے زندگی میں یہ پلاٹ بھائی کو ہبہ نہیں کیا تھا، نہ کبھی یہ کہا تھا کہ میں نے یہ پلاٹ آپ کو دے دیا یا آپ رکھ لیں، بلکہ بڑے بھائی کے بقول والد صاحب نے کہا تھا کہ مجھے عمرہ کروانا اور تین چار لاکھ روپیہ بھی دینا اور دیگر بھائیوں سے یہ کہا تھا کہ اس سے یعنی ارشد سے اس پلاٹ کے پیسے نہ لینا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سوال میں ذکر کی گئی وضاحت کے مطابق چونکہ والد صاحب نے زندگی میں یہ پلاٹ آپ کے بھائی کو ہبہ (گفٹ) نہیں کیا تھا، بلکہ دیگر بیٹوں سے کہا تھا کہ اس کو کچھ نہ کہنا یا یہ کہا تھا کہ اس سے پیسے نہ لینا، ان دونوں صورتوں میں شرعاً ہبہ نہیں ہوا، کیونکہ ان الفاظ میں تملیک والا معنی نہیں ہے، لہذا ان کلمات کی زیادہ سے زیادہ حیثیت وصیت کی ہوگی اور شرعی اعتبار سے وارث کے لیے دوسرے ورثہ کی رضامندی کے بغیر وصیت معتبر اور نافذ نہیں ہوتی، اس لیے آپ کے والد مرحوم کے ان کلمات کا اعتبار نہیں کیا جائے گا اور یہ پلاٹ بھی دیگرترکہ سمیت ان کی وراثت میں شامل ہو گا، البتہ پلاٹ پر تعمیر چونکہ آپ کے بھائی نے اپنی ذاتی رقم سے کی ہے اس لیے تعمیر اسی کی ملکیت ہو گی، لہذا دو تجربہ کار آدمیوں سے صرف پلاٹ کی قیمت لگوائی جائے اور وہ قیمت وصول کر کے تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کر دی جائے۔
جہاں تک والد صاحب کے متروکہ چالیس لاکھ روپے کا تعلق ہے تو شرعی نقطہٴ نظر سے والد صاحب نےاپنے انتقال کے وقت جو بھی چھوٹا بڑا سازو سامان، نقدی اور جائیداد چھوڑی ہے وہ اور یہ چالیس لاکھ روپیہ سب ان کا ترکہ ہے، جس میں سے ان کے ذمہ واجب الادء قرض اورپھر وصیت (اگرغیروارث کے لیے کوئی جائز وصیت کی ہو)وغیرہ کی ادائیگی کے بعد سب ورثاء اپنے شرعی حصوں کے تناسب سے حق دار ہوں گے، جس میں مرحوم کی بیوی (آپ کی والدہ) کا آٹھواں حصہ نکالنے کے بعد باقی تمام ترکہ سب بیٹے اور بیٹیوں میں اس طرح تقسیم ہو گا کہ بیٹوں کو بیٹیوں کی بنسبت دوگناحصہ دیا جائے گا۔
البتہ دیگر بھائی بہنوں کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ جس طرح ان سب کی شادیاں والد صاحب نے اپنے مال سے کیں اور ایک ایک کمرہ بھی بنا کر دیا، اسی طرح آپ دونوں کی شادی کے اخراجات بھی بطورِتبرع والد صاحب کے متروکہ مال سے ادا کر دیے جائیں، اس سے آپ دونوں کی ضرورت بھی پوری ہو جائے گی اور سب بہن بھائیوں کے آپس کے تعلقات بھی اچھے رہیں گے۔
حوالہ جات
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 222) دار احياء التراث العربي – بيروت:
الهبة عقد مشروع لقوله عليه الصلاة والسلام: "تهادوا تحابوا" وعلى ذلك انعقد الإجماع "وتصح بالإيجاب والقبول والقبض" أما الإيجاب والقبول فلأنه عقد،والعقد ينعقد بالإيجاب، والقبول، والقبض لا بد منه لثبوت الملك. وقال مالك: يثبت الملك فيه قبل القبض اعتبارا بالبيع، وعلى هذا الخلاف الصدقة. ولنا قوله عليه الصلاة والسلام: "لا تجوز الهبة إلا مقبوضة" والمراد نفي الملك، لأن الجواز بدونه ثابت، ولأنه عقد تبرع، وفي إثبات الملك قبل القبض إلزام المتبرع شيئا لم يتبرع به، وهو التسليم فلا يصح.
محمد نعمان خالد
دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی
14/ذوالقعدة1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب |