87583 | طلاق کے احکام | الفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان |
سوال
میں ایک شادی شدہ خاتون ہوں اور میری شادی کو نو سال ہو چکے ہیں۔ شوہر اور میرے درمیان وقت کی کمی اور مصروفیات کی وجہ سے زیادہ وقت ساتھ نہیں گزرتا، اور جب بھی وقت گزرتا ہے تو اکثر جھگڑے اور تلخ کلامی ہو جاتی ہے۔میں چند جملے ذکر کرنا چاہتی ہوں جو میرے شوہر نے مجھے کہے، اور ان کے شرعی احکام جاننا چاہتی ہوں، شادی کے اگلے دن جب میرے بال ایک مرد نے بنائے، تو میرے شوہر نے کہا: "تم مجھ پر حرام ہو گئی ہو، تمہیں کسی مرد نے ہاتھ لگایا ہے۔" مجھے ان باتوں کا شرعی حکم معلوم نہیں تھا، اب اس حوالے سے معلوم کرنا چاہتی ہوں کہ کہیں ان باتوں سے طلاق تو واقع نہیں ہوئی؟ بعد میں اس معاملے میں معافی تلافی ہوئی اور صلح ہو گئی ، اس جملے کا شرعی حکم کیا ہے؟
وضاحت : سائل نے بتایا کہ مجھے یہ علم تھا کہ کسی اجنبی مرد کے ہاتھ لگانے سے نکاح نہیں ٹوٹتا۔ البتہ تم مجھ پر حرام ہو گئی ہو کہنے کا حکم معلوم نہیں تھا۔ یہ الفاظ میں نے محض غصے اور جذبات میں آ کر کہے تھے۔ سائلہ کے بقول اُس وقت یہ بھی کہا تھا کہ تم اپنے والد کے گھر چلی جاؤ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
لفظ 'حرام' آج کے عرف میں طلاق کے حوالے سےصریح ہے، اور چونکہ اس لفظ میں شدت کا پہلو پایا جاتا ہے، اس لیے اس سے بغیر نیت کے طلاقِ بائن واقع ہو جاتی ہے۔ چنانچہ سائلہ اور اس کے شوہر کے درمیان نکاح ختم ہو چکا تھا۔ طلاقِ بائن کے بعد تجدیدِ نکاح کے بغیر بیوی کے ساتھ رہنا شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ مذکورہ طلاقِ بائن کے بعد جتنا عرصہ میاں بیوی نے بغیر تجدیدِ نکاح کے ساتھ گزارا، وہ ناجائز اور گناہ تھا۔ اب اگر دونوں دوبارہ ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو فوراً نئے مہر، نئے ایجاب و قبول اور دو گواہوں کی موجودگی میں تجدیدِ نکاح کر لیں۔ تجدیدِ نکاح کی صورت میں شوہر کے پاس آئندہ دو طلاقوں کا اختیار باقی رہے گا۔ اگر تجدیدِ نکاح نہیں کرنا چاہتے تو فوری طور پر ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کریں۔
حوالہ جات
(رد المحتار : 299/3
وإن كان الحرام في الأصل كناية يقع بها البائن لأنه لما غلب استعماله في الطلاق لم يبق كناية، ولذا لم يتوقف على النية أو دلالة الحال.
)الدر المختار ( 252/3:
ومن الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام فيقع بلا نية للعرف. (قوله فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحا لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن لأن الصريح قد يقع به البائن كما مر...كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية.
محمد ادریس
دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی
20 ٖذیقعدہ 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد ادریس بن محمدغیاث | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |