03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وراثت سے متعلق مختلف سوالات
87594میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ہمارے والد محترم جناب جمیل احمد صاحب (مرحوم) جو کہ آرمی کے ادارے ( ایم ای ایس) سے انجینیر ریٹائر ہوئے تھے ، ان کا 4 فروری 2025 کوانتقال ہو گیا تھا۔ جبکہ ہماری والدہ محترمہ پہلے ہی انتقال فرما چکی تھیں، ان کے ورثاء میں 5 بیٹے ( اشفاق احمد ، اشتیاق احمد ، مشتاق احمد ، اخلاق احمد ، آفاق احمد ) اور 5 بیٹیاں ( نگہت کلثوم ، فرحت کلثوم ، رفعت کلثوم، عفت کلثوم ، نزہت کلثوم ) شامل ہیں۔

والد صاحب کے ترکہ کی تفصیل:

1۔ ایک 3 منزلہ رہائشی مکان جو کہ 200 گز کے پلاٹ پر تعمیر شدہ ہے، اس کی قیمت اندازے کے مطابق تقریباً 2 کروڑ روپے ہے۔ ( یہ مکان اس وقت4 بیٹوں اور 2 بیٹیوں کے زیر استعمال ہے )

2۔ اسی مکان کے نیچے بنی ہوئی 4 دوکانیں، جن کا مشتر کہ ماہانہ کرایہ 29 ہزار روپے وصول ہوتا ہے۔

3۔ ایک 200 گز کا الگ خالی پلاٹ ہے، جس کی قیمت اندازے کے مطابق تقریباً 10 لاکھ روپے ہے۔

4۔ بینک میں پنشن کی رقم 5 لاکھ 35 ہزار روپے تھی، جو نکلوا کر محفوظ کر لی گئی ہے۔

5۔ سونے کے زیورات جن کا وزن موتی کے ساتھ 106 گرام ہے۔ والد صاحب اس کی زکوۃ بھی دیا کرتے تھے۔

6۔ والد صاحب نے اپنی زندگی میں 16 گرام سونے کا زیور اپنی غیر شادی شدہ بیٹی ( عفت کلثوم) کے نام کر دیا تھا۔

وضاحت:سائل نے بتایا کہ یہ سونا والد صاحب نے زندگی میں اس بیٹی کے لیے خریدا تھا، مگر یہ سونا ان کے قبضہ میں نہیں دیا گیا تھا، بلکہ والد صاحب کے ہی قبضہ میں تھا اور وہی اس کی زکوة ادا کرتے تھے۔

7۔ گھر میں استعمال کا بیشتر سامان وغیرہ بھی والد صاحب کی ملکیت تھا، اس کے علاوہ کچھ نقدر قم بھی ہے۔

والد صاحب کے ذمہ واجب الاداء چیزوں کی تفصیل:

والد صاحب کی کوئی وصیت موجود نہیں ہے، البتہ سب ورثاء نے اپنی اپنی معلومات کے مطابق والد صاحب کے ذمہ درج ذیل واجب الاداء چیزوں کی درج ذیل تفصیل جمع کی ہے:

1- بیماری کی حالت میں 3 ماہ کی قضاء نمازیں۔

2۔ آرمی کی ملازمت کے دوران محکمے سے ایک لکڑی کی  بنی ہوئی  دروازوں والی چھوٹی الماری اور ایک لکڑی سے بنی ڈولی جو استعمال کے لیے لی گئی تھی،  لیکن ریٹائر منٹ کے بعد غلطی سے سامان میں شامل ہو گئی تھی، جس کو ابھی تک واپس نہیں کیا جاسکا، اس وقت ان کی موجودہ قیمت تقریباً 35 ہزار روپے ہے۔

3۔ محکمے کی طرف سے کچھ لکڑی گھر کی کرسیوں میں استعمال ہو گئی تھی، اس کی قیمت کا اندازہ تقریباً 10 ہزار روپے ہے۔

4۔ والد صاحب نے پڑھائی کے دوران ایک پرنسپل سے 1 ہزار روپے ادھار لیے تھے ، ان کا نام اور پتہ معلوم نہیں ہے۔

ورثاء کے سوالات:

ہم ورثاء کے ذہنوں میں مندرجہ ذیل سوالات ہیں،جن کے بارے میں ہمیں شریعت کے مطابق رہنمائی درکار ہے۔

1۔ کیا والد صاحب کی قضاء نمازوں کا فدیہ ادا کر نا ضروری ہے ؟ جب کہ اس حوالے  سےان کی کوئی وصیت موجود نہیں ہے۔ بعض ورثاء والد صاحب کی رقم سے فدیہ ادا کرنا چاہتے ہیں اور بعض راضی نہیں ہیں۔

2۔ آرمی کا جو فرنیچر ( ایک لکڑی سے بنی دروازوں والی چھوٹی الماری اور ایک لکڑی سے بنی ڈولی ) ہمارے پاس موجود ہے اس کو واپس کیسے کیا جائے؟اگر واپسی کی صورت ممکن نہ ہو تو پھر کیا کیا جائے؟اسی طرح اسکول کے پرنسپل سے لیے گئے ہزار روپیہ کا کیا ہے؟ جبکہ ان کا اب کچھ معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہے؟

3۔ والد صاحب کی ماہانہ پنشن اب قواعد کی رو سے غیر شادی شدہ بیٹی (عفت کلثوم) کے نام منتقل ہو جائے گی۔ کیا اس میں بھی وراثت جاری ہو گی یا یہ رقم عفت کلثوم کی ملکیت ہو گی ؟

4۔ گھر میں استعمال کی اکثر چیزیں اور کچن کا مکمل سامان  ( جو کہ 2 بہنوں اور بڑے بھائی کے استعمال میں ہے) اس کی تقسیم کیسے کی جائے گی ؟

5۔ جب تک مکان فروخت نہیں ہو تا یا وراثت تقسیم نہیں ہوتی ، اس وقت تک دوکانوں کا جو کرایہ وصول ہو رہا ہے ، کیا وہ والد صاحب کا ترکہ شمارہو گا؟ اگر نہیں تو اس رقم کا کیا کیا جائے؟

6۔ اگر ورثاء میں سے کوئی بھائی یا بہن اپنے حصہ کا فوری مطالبہ کرے تو وراثت کی تقسیم کا کیا حکم ہو گا ؟

7۔ اگر ترکے میں موجود صرف نقدر قوم سے والد صاحب کے واجبات نکال کر بقیہ رقم شریعت کے مطابق ورثاء میں تقسیم کر دی جائے تو کیا ایسا کرنا شرعی اعتبار سے درست ہے ؟

وضاحت: سائل نے بتایا کہ واجبات سے مراد والد صاحب کی قضاء نمازوں کا فدیہ ہے اور ایک ہزار روپیہ قرض ہے، باقی ایک لکڑی کی الماری اور ڈولی ہے، جو محکمے کو واپس کرنی ہے۔

8۔ رہائشی گھر چونکہ 4 بھائیوں اور 2 بہنوں کے زیر استعمال ہے، اسے فروخت کر کے شاید اتنی رقم ان سب کو نہ مل سکے جس سے یہ سب لوگ الگ الگ یا مشتر کہ رہائش کا انتظام کر سکیں۔ تو کیااس کی تقسیم اور فروخت مؤخر کی جاسکتی ہے ؟

9۔ کیا اس رہائشی گھر کے مکین اس طرح کر سکتے ہیں کہ تمام بھائی مل کر بہنوں کو الگ حصہ قسطوں پر ادا کریں؟ تاکہ بعد میں ملکیت صرف بھائیوں میں رہ جائے۔

10۔ اگر ورثاء میں سے کوئی ایک بھی قسطوں پر اپنا حصہ لینے پر راضی نہ ہو تو باقی ورثاء کے لیے کیا حکم ہو گا ؟

11۔ اگر 10 ورثاء میں سے 9 فوری وراثت کی تقسیم کا مطالبہ نہ کر رہے ہوں صرف ایک فوری مطالبہ کر رہا ہو تو شرعی حکم کیا ہو گا ؟ اس ایک کو شرعی اعتبار سے کیسے فوری حصہ دیا جائے گا ؟

12۔ اگر ایک بھائی بے روز گار ہو اور وہ گھر کے بل اور منٹینس وغیرہ کے اخراجات میں سے اپنا حصہ شامل نہ کر تا ہو اور وراثت میں اپنے حصہ کا تقاضاکرے تو کیا حکم ہے ؟

13۔ گھر میں موجود فریج والدہ صاحبہ اور دو بھائیوں کے پیسوں سے خریدا گیا تھا اور اسی طرح ایک بہن اور والدہ صاحبہ کے 5 ہزارروپے سے ایک صوفہ بھی خریدا گیا تھا  جو کہ گھر میں موجود ہے، والدہ صاحبہ کے 570 روپے بھی ملے ہیں،  جبکہ والدہ صاحبہ کی میراث تقسیم کر دی گئی تھی، لیکن ان چیزوں کی تقسیم نہیں ہو سکی) اب اس کا کیا حکم ہے اور کیسے تقسیم کیا جائے؟

وضاحت: سائل نےبتایا کہ یہ کافی پرانی بات ہے،  اس وقت تمام بھائی مشترکہ طور پر رہتے تھے تو اس وقت یہ فریج اور صوفہ مشترکہ سب کے استعمال کے لیے خریدا تھا اور اس وقت کسی بھائی کی شادی بھی نہیں ہوئی تھی۔   

14۔ گھر کا کچھ سامان کسی بھائی یا بہن نے اپنی ذاتی پیسوں سے لا کر گھر میں استعمال کے لیے دے دیا تھا۔ کیا اس میں بھی میراث تقسیم ہو گی ؟

وضاحت: سائل نے بتایا کہ جب یہ سامان دیا گیا تھا اس وقت ایک بھائی والد صاحب کے ساتھ رہتا تھا، باقی بھائی علیحدہ علیحدہ رہتے تھے، جب علیحدہ رہنے والے بھائی سعودیہ منتقل ہونے لگے تو انہوں نے وہ سامان جیسے صوفہ وغیرہ گھر دیا تھا اور ہبہ یا عارت کی کوئی صراحت نہیں کی گئی تھی۔

15۔ جن ورثاء کا شروع میں ذکر کیا گیا ان میں وراثت کس طرح تقسیم ہو گی؟ ہر وارث کو شرعی اعتبار سے کتنا حصہ ملے گا؟ نیز والد صاحب کی وفات کے وقت ان کے والدین، دادا اور دادی وغیرہ میں سے کوئی بھی حیات نہیں تھا۔

مفتیان کرام سے درخواست کرتے ہیں کہ وراثت سے متعلق مزید کوئی بھی بات پوچھنی ہو تو اس نمبر کے ذریعے معلوم کی جاسکتے ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

تمام سوالات کے جوابات بالترتیب ملاحظہ فرمائیں:

  1. والد صاحب کی قضاء نمازوں کا فدیہ دینا آپ کے ذمہ شرعاً لازم نہیں، کیونکہ سوال میں تصریح کے مطابق انہوں نے زندگی میں نمازوں کا فدیہ دینے کی وصیت نہیں کی تھی اور بغیر وصیت کے فدیہ دینا ورثاء کے ذمہ شرعاً لازم نہیں ہوتا، البتہ ورثاء کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ والد صاحب کے ساتھ احسان کا معاملہ کرتے ہوئے ان کے متروکہ مال سےان کی فوت شدہ نمازوں کا فدیہ ادا کردیں، تاکہ آخرت میں اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ مغفرت کا معاملہ فرما دیں، نیز اس صورت میں فدیہ ادا کرنے والے ورثاء کو بھی اس کے عوض آخرت میں پورا پورا اجر اور بدلہ دیا جائے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (2/ 72) الناشر: دار الفكر-بيروت:

(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة (وكذا حكم الوتر) والصوم، وإنما يعطي (من ثلث ماله).

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (2/ 72) الناشر: دار الفكر-بيروت:

(قوله يعطى) بالبناء للمجهول: أي يعطي عنه وليه: أي من له ولاية التصرف في ماله بوصاية أو وراثة فيلزمه ذلك من الثلث إن أوصى، وإلا فلا يلزم الولي ذلك لأنها عبادة فلا بد فيها من الاختيار، فإذا لم يوص فات الشرط فيسقط في حق أحكام الدنيا للتعذر،

بخلاف حق العباد فإن الواجب فيه وصوله إلى مستحقه لا غير، ولهذا لو ظفر به الغريم يأخذه بلا قضاء ولا رضا، ويبرأ من عليه الحق بذلك إمداد.

ثم اعلم أنه إذا أوصى بفدية الصوم يحكم بالجواز قطعا لأنه منصوص عليه. وأما إذا لم يوص فتطوع بها الوارث فقد قال محمد في الزيادات إنه يجزيه إن شاء الله تعالى، فعلق الإجزاء بالمشيئة لعدم النص، وكذا علقه بالمشيئة فيما إذا أوصى بفدية الصلاة لأنهم ألحقوها بالصوم احتياطا لاحتمال كون النص فيه معلولا بالعجز.

  1. آرمی کا جو فرنیچرآپ لوگوں کے پا موجود ہے اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ متعلقہ شعبہ کےکسی دیانتدار افسر سے اس کی واپسی کے بارے میں معلومات لی جائیں، اگر ان کو واپس کرنا ممکن ہو تو یہ فرنیچر اس شعبہ کو واپس کر دیا جائے، اور اگر یہ فرنیچر واپس کرنا ممکن نہ ہو تو اس کے عوض اتنی قیمت متعلقہ شعبہ کے اکاؤنٹ میں جمع کروا دی جائے یا اس قیمت کے عوض متعلقہ افسران کے مشورہ  سےکوئی  اورضرورت کی چیز جیسے کرسیاں وغیرہ خرید کر جمع کروا  دی جائیں۔

جہاں تک پرنسپل سے لیے گئے ہزار روپے کا تعلق ہے تو اگر پرنسپل یا اس کے ورثاء میں سے کسی علم ہو سکتا ہو تو اس تک وہ ہزار روپیہ پہنچا دیا جائے اور اگر کوشش کے باوجود ورثاء وغیرہ بھی کا بھی علم نہ ہو تو یہ رقم پرنسپل کی طرف سے بلانیتِ ثواب صدقہ کر دی جائے۔

تحفة الفقهاء (3/ 91) الناشر: دار الكتب العلمية، بيروت:

وأما حكم الغصب فمن حكمه وجوب رد العين المغصوبة ما دامت قائمة من غير نقصان لقوله عليه السلام على اليد أخذت حتى تردومن حكمه أيضا وجوب ضمان النقصان إذا انتقص.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (4/ 283) الناشر: دار الفكر-بيروت:

(عليه ديون ومظالم جهل أربابها وأيس) من عليه ذلك (من معرفتهم فعليه التصدق بقدرها من ماله وإن استغرقت جميع ماله) هذا مذهب أصحابنا لا تعلم بينهم خلافا كمن في يده عروض لا يعلم مستحقيها اعتبارا للديون بالأعيان (و) متى فعل ذلك (سقط عنه المطالبة) من أصحاب الديون.

قال ابن عابدین: (قوله: جهل أربابها) يشمل ورثتهم، فلو علمهم لزمه الدفع إليهم؛ لأن الدين صار حقهم. وفي الفصول العلامية: من له على آخر دين فطلبه ولم يعطه فمات رب الدين لم تبق له خصومة في الآخرة عند أكثر المشايخ؛ لأنها بسبب الدين وقد انتقل إلى الورثة. والمختار أن الخصومة في الظلم بالمنع للميت، وفي الدين للوارث.

  1. ریٹائرمنٹ کے بعد ملازم کو ملنے والی ماہانہ پنشن کا شرعی حکم یہ ہے کہ وہ ادارے کی طرف سے عطیہ شمار ہوتی ہے، کیونکہ مہینہ پورا ہونے سے پہلے یہ ملازم کا حقِ لازم نہیں ہوتا، اسی لیے مہینہ مکمل ہونے سے پہلے یہ رقم وصول نہیں کی جا سکتی، اس لیے ادارہ اپنے اصول وضوابط کے مطابق خاندان کے جس فرد کے نام سے یہ پنشن جاری کرے وہی اس کا مستحق ہو گا اور جو چیز وفات پانے والے شخص کی ملکیت یا زندگی میں اس کا حق لازم نہ ہو اس میں وراثت جاری نہیں ہوتی، لہذا مذکورہ صورت میں ماہانہ پنشن غیر شادی شدہ بیٹی (عفت کلثوم)  ہی اس کی مالک ہو گی، کیونکہ سوال میں تصریح کے مطابق اب والد صاحب کی وفات کے بعد ادارے کے اصول ضوابط کے مطابق یہ اسی بیٹی کے نام منتقل ہو گی،  لہذا یہ رقم اس بیٹی کے لیے ادارے کی طرف سے عطیہ ہو گی، جس میں وراثت کا قانون جاری نہیں ہو گا۔

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام(57/1) الناشر: دار الجيل:

[ (المادة 57) لا يتم التبرع إلا بقبض]

لا يتم التبرع إلا بقبض هذه القاعدة مأخوذة من الحديث الشريف القائل «لا تجوز الهبة إلا مقبوضة» على أنه لو كانت الهبة تتم بدون القبض لأصبح الواهب حينئذ مجبرا على أداء شيء ليس بمجبر على أدائه، وذلك مخالف لروح التبرع فالتبرع هو إعطاء الشيء غير الواجب، إعطاؤه إحسانا من المعطي.

مثال: لو وهب شخص مالا لآخر فما لم يقبضه بإذن الواهب لا يحق له أن يتصرف بذلك المال. كذا لو عدل شخص - بعد أن أخرج نقودا بيده ليعطيها فقيرا ولم يسلمها إليه - عن إعطائه إياها، فلا يجبر على ذلك. والحاصل أن الهبة سواء كانت بلا عوض أو كانت بشرط العوض فتمامها موقوف على القبض، ولكن لأن الوصية تمليك مضاف إلى ما بعد الموت لا تتوقف على القبض، ولزومها للورثة ناشئ عن وفاة المورث الذي له وحده حق الرجوع عن تبرعه.

  1.  گھر کے استعمال کی چیزیں اور کچن کا سامان وغیرہ اگر والد صاحب کی ملکیت تھا تو یہ سب چیزیں بھی ان کے ترکہ میں شامل ہوں گی اور اس میں ان کے تمام ورثاء اپنے شرعی حصوں کے مطابق حق دار ہوں گے، البتہ اگر یہ چیزیں مشترکہ رہنے کے دوران سب بھائیوں کی آمدن سے خریدی گئیں تھیں تو ان پر وراثت کا حکم نہیں لگےگا، بلکہ یہ سب بھائیوں کی ملکیت سمجھی جائے گی۔

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (1/ 94) الناشر: دار المعرفة:

(سئل) في إخوة خمسة سعيهم وكسبهم واحد وعائلتهم واحدة حصلوا بسعيهم وكسبهم أموالا فهل تكون الأموال المذكورة مشتركة بينهم أخماسا؟

(الجواب) : ما حصله الإخوة الخمسة بسعيهم وكسبهم يكون بينهم أخماسا (أقول) هذا في غير الأب مع ابنه والزوج مع زوجته لما نقله المؤلف في غير هذا المحل عن دعوى البزازية.

  1.  مذکورہ دکانیں بھی چونکہ وراثت میں شامل ہیں، اس لیے ان سے حاصل شدہ کرایہ بھی مرحوم کی  وراثت  اور ترکہ میں  شامل ہو کر تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہو گا۔

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (1/ 92) الناشر: دار المعرفة:

(سئل) في إخوة خمسة تلقوا تركة عن أبيهم فأخذوا في الاكتساب والعمل فيها جملة كل على قدر استطاعته في مدة معلومة وحصل ربح في المدة وورد على الشركة غرامة دفعوها من المال فهل تكون الشركة وما حصلوا بالاكتساب بينهم سوية وإن اختلفوا في العمل والرأي كثرة وصوابا؟

(الجواب) : نعم إذ كل واحد منهم يعمل لنفسه وإخوته على وجه الشركة وأجاب الخير الرملي بقوله هو بينهما سوية حيث لا يميز كسب هذا من كسب هذا ولا يختص أحدهما به ولا بزيادة على الآخر إذ التفاوت ساقط كملتقطي السنابل إذا خلطا ما التقطا وحيث كان كل منهما صاحب يد لا يكون القول قول واحد منهما بقدر حصة الآخر.

  1.  وراثت کی تقسیم ایک شرعی حق ہے جس پر عمل کرنا تمام ورثاء کی شرعی ذمہ داری ہے، بغیر کسی معتبر عذر کے اس میں تاخیر سے کام لینا ہرگز جائز نہیں، لہذا مذکورہ صورت میں اگر کوئی بھائی یا بہن وراثت میں سے شرعی حصے  کا مطالبہ کرے تو دیگر ورثاء کے ذمہ لازم ہے کہ وہ وراثت کو تقسیم کر کے ہر وارث کا شرعی حصہ ان کے حوالے کریں۔

رد المحتار(کتاب القسمة، 260/6،ط: ايچ ايم سعید):

"(وقسم) المال المشترك (بطلب أحدهم إن انتفع كل) بحصته (بعد القسمة وبطلب ذي الكثير إن لم ينتفع الآخر لقلة حصته) وفي الخانية: يقسم بطلب كل وعليه الفتوى، لكن المتون على الأول فعليها للعول (وإن تضرر الكل لم يقسم إلا برضاهم) لئلا يعود على موضوعه بالنقض."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (6/ 262) الناشر: دار الفكر-بيروت:

مطلب لكل من الشركاء السكنى في بعض الدار بقدر حصته:

(قوله أمر القاضي بالمهايأة) أقول: ذكر في العمادية في الفصل  لكل واحد من الشركاء أن يسكن في بعض الدار بقدر حصته اهـ، وبمثله أفتى في الحامدية. وانظر إذا طلب أحدهما ذلك والآخر المهايأة أيهما يقدم؟ وهي تقع كثيرا، يقول لي خشبة أسكن تحتها فليحرر، وسيأتي بيان المهايأة وأحكامها آخر الباب وأن الأصح أن القاضي يجبر عليها بطلب أحدهما ومنه يظهر الجواب تأمل.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (6/ 262) الناشر: دار الفكر-بيروت:

(قوله دور مشتركة) مثلها الأقرحة كما في الهداية وهي جمع قراح: قطعة من الأرض على حيالها لا شجر فيها ولا بناء. واحترز بالدور عن البيوت والمنازل جمع منزل أصغر من الدار وأكبر من البيت، لأنه دويرة صغيرة فيها بيتان أو ثلاثة والبيت مسقف واحد له دهليز (قوله منفردة) أي يقسم كل من الدور أو الدار والضيعة: وهي عرصة غير مبنية أو الدار والحانوت: وهو الدكان قسمة فرد، فتقسم العرصة بالذراع والبناء بالقيمة قهستاني لا قسمة جمع، بأن يجمع حصة بعضهم في الدار مثلا وحصة الآخر في غيرها لأنها أجناس مختلفة أو في حكمها كما يعلم من الهداية، ولذا قال القهستاني: لو اكتفى بما سبق من قوله ولا الجنسان لكان أخصر (قوله مطلقا) يفسره ما بعده ولم يذكر المنازل والبيوت المحترز عنها. قال مسكين: والبيوت تقسم قسمة واحدة متباينة أو متلازقة، والمنازل كالبيوت لو متلازقة وكالدور لو متباينة. وقالا في الفصول كلها بنظر القاضي إلى أعدل الوجوه فيمضي القسمة على ذلك اهـ. قال الرملي: ويستثنى منه ما إذا كانا في مصرين فقولهما كقوله اهـ.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (6/ 264) الناشر: دار الفكر-بيروت:

(سفل له) أي فوقه (علو) مشتركان (وسفل مجرد) مشترك والعلو لآخر (وعلو مجرد) مشترك والسفل لآخر (قوّم كل واحد) من ذلك (على حدة، وقسم بالقيمة) عند محمد وبه يفتى.

الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (6/ 4736) الناشر: دار الفكر - سوريَّة – دمشق:

قال الحنفية: القسمة نوعان: 1 - قسمة جبرية: وهي التي يتولاها القاضي، بطلب أحد الشركاء. ولو قسم القاضي أو نائبه بالقرعة، فليس لبعض الشركاء الإباء بعد خروج بعض السهام.

2 - قسمة رضائية: وهي التي يفعلها الشركاء بالتراضي، وهي تعتبر عقدا من العقود، ركنها ككل عقد: هو الإيجاب والقبول، ومحلها: العين المشتركة التي يجوز الاتفاق على قسمتها.

  1.  والد صاحب کے ذمہ واجب الاداء قرض اور محکمہ کی الماری وغیرہ تو بہر حال وراثت کی تقسیم سے پہلے ادا کرنا ضروری ہے، جہاں تک نمازوں کے فدیہ کی ادائیگی کا تعلق ہے تو وہ چونکہ ورثاء کے ذمہ ادا کرنا شرعاً لازم نہیں، اس لیے وہ تمام ورثاء کی رضامندی کے بغیر ادا کرنا جائز نہیں،  البتہ اگر تمام ورثاء رضامند ہوں  اور ان میں کوئی نابالغ بھی نہ ہو ت نقد رقم سے والد صاحب کے واجبات یعنی نمازوں کا فدیہ وغیرہ  ادا کر سکتے ہیں، اس کے بعد بقیہ ترکہ شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کر لیا جائے۔ 

  2. سوال نمبر6 میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق چونکہ بعض ورثاء اپنے حصوں کا مطالبہ کر رہے ہیں، لہذا ایسی صورت میں بغیر کسی معتبر عذرکے وراثت کی تقسیم کو مؤخر کرنا جائز نہیں، جہاں تک رہائشی مکان میں چار بھائیوں اور دو بہنوں کے رہائش اختیار کرنے کا تعلق ہے تو اگر ان میں استطاعت ہے تو  یہ حضرات اس مکان میں موجود دیگر ورثاء کی رضامندی سے ان کا حصہ خرید کر ان کو رقم ادا کر سکتے ہیں اور اگر بالفرض ان کے اندر اتنی مالی استطاعت موجود نہیں ہے تو اس کا حل یہ ہے کہ مکان کسی تیسرے شخص کو بیچ  دیا  جائے اور  حاصل شدہ رقم ورثاء آپس میں تقسیم کر لیں اور یہ چار بھائی اور دو بہنیں خریدار سے وہ مکان کرایہ پر لے کر اس میں رہائش جاری رکھ سکتی ہیں، کیونکہ آج کل بے شمار لوگ کرایہ کے گھروں میں رہتے ہیں، لہذا اس کی وجہ سے دیگر ورثاء کے حصوں کی ادائیگی میں تاخیر کرنا شرعا درست نہیں، بلکہ ان کا احساس کرتے ہوئے وراثت کی جلد از جلد وراثت کی تقسیم کے لیے کوئی حل  تلاش کرنا ضروری ہے۔ 

یہ بھی یاد رہے کہ بعض ورثاء کا دیگر ورثاء کی رضامندی کےبغیروراثتی مکان سےنفع اٹھانا جائز نہیں  اور جب تک وہ اس طرح اس مکان سےنفع اٹھاتے رہیں گے وہ گناہ گار ہوں گے۔

مسند أحمد ط الرسالة (34/ 560) الناشر: مؤسسة الرسالة:

21082 - حدثنا عبد الله حدثني محمد بن عباد المكي، حدثنا حاتم بن إسماعيل، عن عبد الملك بن حسن الجاري، عن عمارة بن حارثة، عن عمرو بن يثربي، قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " ألا ولا يحل لامرئ من مال أخيه شيء، إلا بطيب نفس منه.

الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص: 272) الناشر: دار الكتب العلمية، بيروت:

ما يقبل الإسقاط من الحقوق وما لا يقبله، وبيان أن الساقط لا يعود: لو قال الوارث: تركت حقي لم يبطل حقه؛ إذ الملك لا يبطل بالترك، والحق يبطل به.

  1. اگر بہنیں اپنا وراثتی حصہ اپنی خوشی سے قسطوں میں لینے پر راضی ہوں تو ان کا حصہ قسطوں میں نقدی کی صورت میں دیا جا سکتا ہے، لیکن عام طور پر بہنوں کے ساتھ اس طرح کا معاملہ کر لینے کے بعد بھائی سستی اور غفلت کا شکار ہو جاتے ہیں اور بہنوں کی دلی رضامندی کے بغیر معاملہ یوں ہی سالہا سال تک چلتا رہتا ہے، جس کی وجہ سے بہنوں کو کافی تکلیف اور نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیونکہ اب وہ اپنے حصے کا مطالبہ بھی نہیں کر سکتیں اور دوسری طرف بھائیوں کو بھی فوری ادائیگی پر مجبور کرنا ان کے لیے عملاممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ بہنوں کو قسطوں میں رقم ادا کرنے کی بجائے مکان  کر بیچ نقد  رقم ادا کرنے کی جائے۔

  2. جب ورثاء میں سے کوئی ایک وارث بھی قسطوں پر اپنا حصہ لینے پر راضی  نہیں تو سب ورثاء کی ذمہ داری ہے کہ ترکہ کو بیچ کر حاصل شدہ رقم اپنے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کریں، ایسی صورت میں خاص طور پر بہنوں یا کسی اور وارث کو قسطوں میں حصہ لینے پر مجبور کرنا ہرگز جائز نہیں۔

القرآن الكريم [البقرة: 188]:

{ وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ}

صحيح البخاري (3/ 130، رقم الحديث: 2452) الناشر: دار طوق النجاة:

حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: حدثني طلحة بن عبد الله، أن عبد الرحمن بن عمرو بن سهل، أخبره أن سعيد بن زيد رضي الله عنه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «من ظلم من الأرض شيئا طوقه من سبع أرضين»

  1.  مشترکہ ترکہ میں ہر وارث اپنے شرعی حصہ کے مطابق حق دار ہوتا ہے اور شریعت نے ہر وارث کو اپنے  وراثتی حصہ سے نفع اٹھانے کا مکمل طور پر حق دیا ہے، لہذا ورثاء میں سے خواہ ایک ہی وارث ترکہ کی فوری تقسیم کا مطالبہ کرے تو اس کی رعایت رکھتے ہوئے دیگر ورثاء کی شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ بغیر کسی معتبر عذر (جیسے مکان اور دکان وغیرہ کی فروختگی میں گاہک کا نہ ملنا وغیرہ) کے ترکہ کو تقسیم کر کے اس کا حصہ اس کے حوالے کریں، باقی یہ عذر معتبر نہیں کہ وراثتی مکان میں رہائش پذیر بھائی بہنوں کے لیے رہائش کے مسائل ہوں گے، کیونکہ یہ مسئلہ دیگر ورثاء کے ساتھ بھی پیش آسکتا ہے، اس لیے شریعت کسی شریک کو یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ اپنے نفع کی خاطر دوسرے شریک کو نقصان پہنچائے۔ البتہ اس کا ایک حل یہ ہو سکتا ہے کہ اگر نو ورثاء فوری تقسیم نہیں کرنا چاہتے تو وہ اس ایک وارث کا شرعی حصہ مشاع طور پر خرید کر اس کو اس کے حصہ کی رقم ادا کر دیں تو اس کا حق ادا ہو جائے گا، پھر دیگر ورثاء بعد میں جب چاہیں باہمی رضامندی سے تقسیم کر سکتے ہیں۔

نیز تمام ورثاء کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بھائی بہنوں کے شرعی حقوق کا خیال رکھے اور حتی الامکان ان کے ساتھ تعاون کی کوشش کرے، خصوصا اگر کوئی وارث معاشی اعتبار سے کمزور ہو تو صلہ رحمی کرتے ہوئے اس کے ساتھ کچھ نرمی کا معاملہ کیا جائے۔

  1.  اگر  مذکورہ  بھائی بے روز گار ہے اور وہ اپنے شرعی حصے کا مطالبہ کر رہا ہے تو بھی اس کا حصہ اس کے سپرد کرنا ضروری ہے، مکان کے بل اور منٹینس وغیرہ میں حصہ نہ ڈالنے کی وجہ سے اس کا حصہ کم کرنا یا اس کو حصہ نہ دینا جائز نہیں۔

  2. سوال میں ذکر کی گئی وضاحت کے مطابق چونکہ اس وقت سب بہن بھائی مشترکہ رہتے تھے اور گھر کا خرچ بھی سب کی مشترکہ آمدن سے چل رہا تھا، اس لیے دو بھائیوں اور بہن نے جو رقم والدہ کے ساتھ  فریج اور صوفہ  خریدنےمیں ڈالی تھی اگر اس وقت رقم بطورِ قرض دینے کی صراحت نہیں کی گئی تھی، جیسا کہ سوال سے معلوم ہوتا ہے تو اس صورت میں  عرف کی بناء پر یہ رقم دینا والدہ کے ساتھ تعاون سمجھا جائے گا اوریہ دونوں چیزیں مکمل طور پر والدہ کا ترکہ شمار ہوں گی، لہذا ان کو بیچ کر یہ رقم تمام ورثاء میں ان کے حصوں کے مطابق تقسیم کر دی جائے یا یہ کہ بعض ورثاء ان کو خرید کر باقی ورثاء کو ان کے حصہ کی رقم ادا کر دیں۔

  3.  سوال میں ذکر کی گئی وضاحت کے مطابق اس وقت چونکہ یہ بھائی اور بہن اکٹھے ایک ساتھ نہیں  رہتےتھے، بلکہ سعودیہ منتقل ہوتے وقت یہ سامان دیا گیا تھا  اس لیے اگر یہ ان کی طرف سے بطورِ ہبہ سب کے لیے دیا گیا تھا تو یہ سامان سب کا مشترکہ ملکیت شمار ہو گا، البتہ اگر انہوں نے اپنی ملکیت برقرار رکھتے ہوئے عارضی طور پر صرف استعمال کے لیے دیا تھاتو اس صورت میں یہ سامان اسی بھائی اور بہن کی ملکیت سمجھا جائے گا جس نے وہ سامان دیا تھا اور اگرہبہ یا عاریت ہونے کی وضاحت نہیں کی گئی تھی تو ایسی صورت میں اس کو عاریت  سمجھاجائے گا اور ان کو وہ سامان واپس لینے کا حق حاصل ہو گا۔

  4.  آپ کے والدمرحوم نے بوقت ِانتقال اپنی ملکیت میں جو کچھ منقولہ وغیر منقولہ مال،جائیداد،سونا،چاندی،نقدی اور ہر قسم کا چھوٹا بڑا جوساز وسامان چھوڑا ہےاور مرحوم کا  وہ قرض جو کسی کے ذمہ  واجب ہو، يہ  سب ان کا ترکہ ہے۔اس میں سے سب سے پہلے مرحوم کے کفن دفن کے متوسط اخراجات نکالے جائیں،البتہ اگر کسی نے بطور تبرع ادا کر دیئے ہوں تو پھر یہ اخراجات نکالنے کی ضرورت نہیں ۔ اس کے بعد مرحوم کا  وہ قرض  ادا کیا جائے  جس کی ادئیگی مرحوم کے ذمہ  واجب ہو۔ اس کے بعدجو ترکہ باقی بچے   اس کوپندرہ حصوں میں (15) برابر تقسیم کرکے  مرحوم کے ہربیٹے کو  دو (2) حصے اور ہر بیٹی کو  ایک(1) حصہ  دے دیا جائے، تقسیم ِ میراث کا نقشہ ملاحظہ فرمائیں:

نمبر شمار

ورثاء

عددی حصہ

فیصدی حصہ

1

بیٹا

2

%13.333

2

بیٹا

2

%13.333

3

بیٹا

2

%13.333

4

بیٹا

2

%13.333

5

بیٹا

2

%13.333

6

بیٹی

1

6.666%

7

بیٹی

1

6.666%

8

بیٹی

1

6.666%

9

بیٹی

1

6.666%

10

بیٹی

1

6.666%

 

حوالہ جات

      القرآن الکریم : [النساء/11]:

       يوصيكم اللَّه في أَولَادكم للذكَر مثل حظ الأنثيينِ.

      السراجی فی المیراث:(ص:19)، مکتبۃ البشری:

وأما لبنات الصلب فأحوال ثلاث: النصف للواحدۃ، والثلثان للإثنین فصاعدا، ومع الابن للذکر مثل حظ الأنثیین وھو یعصبھن.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

23/ذوالقعدة 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب