03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قرض پر زکاۃ کاحکم
87627زکوة کابیانان چیزوں کا بیان جن میں زکوة لازم ہوتی ہے اور جن میں نہیں ہوتی

سوال

میں ایک تاجر ہوں اور تجارتی معاملات میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کچھ رقمیں مختلف گاہکوں کے ذمہ واجب الادا ہوتی ہیں۔ ان میں سے بعض قرضے ایسے ہوتے ہیں جنہیں قرض دار نہ تو صریح انکار کرتا ہے، اور نہ ہی ادا کرتا ہے، بلکہ سال ہا سال گزر جاتے ہیں لیکن وہ مسلسل ٹال مٹول سے کام لیتا ہے۔ بعض کی ادائیگی کی امید تو رہتی ہے، لیکن عملی طور پر کئی سال گزرنے کے باوجود ادائیگی نہیں ہوتی۔اسی طرح بعض گاہکوں کو ادھار مال فروخت کیا جاتا ہے، اور طے ہوتا ہے کہ قیمت قسطوں میں یا کچھ سالوں بعد ادا کی جائے گی۔ بعض گاہک پرانی رقم کی ادائیگی کے بجائے نئے بل کے ساتھ تھوڑی بہت رقم ادا کرتے ہیں، اس سے مکمل بقایا کی وصولی کی کوئی واضح صورت نظر نہیں آتی۔

ان تمام صورتوں میں درج ذیل سوالات کے واضح شرعی جوابات مطلوب ہیں تاکہ زکاۃ کی ادائیگی میں شرعی اصول کی پابندی کی جا سکے:

کن اقسام کے قرض پر زکاۃ واجب ہوگی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

دَین قوی ،جیسے کسی کو نقد رقم قرض دی ہے یا کسی کو مالِ تجارت یا وہ مواشی جن میں زکاۃ فرض ہو، فروخت کیے ہیں اور قیمت وصول نہیں کی، اس قسم کے دین(قرض) میں وصول ہونے سے پہلے گزرے ہوئے تمام سالوں کی زکاۃ فرض ہے،اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر اس کے پاس اس قرض کے علاوہ مالِ زکاۃ بقدر نصاب موجود ہے توجتنی رقم بھی قرض سے وصول ہوتی جائے اس کو نصاب کے ساتھ ملا کر ہر سال کی زکاۃ ساتھ ساتھ اداء کرنا ضروری ہے، اگر کسی سال زکاۃ کی مقرر تاریخ تک کچھ وصول نہ ہو توآئندہ سال وصول ہونے والی مقدار کی دو سال کی زکاۃ ادا کرے، اگر اس کے پاس قرض کے علاوہ نصاب نہ ہو جبکہ یہ قرض بقدرِ نصاب ہوتوجب نصاب (35.612گرام چاندی کی قیمت)کے پانچویں حصہ کے بقدر قرض وصول ہو جائے تواس کی گزشتہ تمام سالوں کی زکاۃ ادا کرے۔ اس میں تاخیر کرنے سے گناہ ہو گا۔اگر قرض وصول ہونے سے پہلے زکاۃ دی تو بھی حرج نہیں ا ور آسانی بھی اسی میں ہے۔

حوالہ جات

الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار (ص132):

(و) اعلم ‌أن ‌الديون عند الامام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف، ف (- تجب) زكاتها إذا تم نصابا وحال الحول، لكن لا فورا بل (عند قبض أربعين درهما من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهما يلزمه درهم (و) عند قبض (مائتين منه لغيرها) أي من بدل مال لغير تجارة وهو المتوسط، كثمن سائمة وعبيد خدمة ونحوهما مما هو مشغول بحوائجه الاصلية كطعام وشراب وأملاك.ويعتبر ما مضى من الحول قبل القبض في الاصح، ومثله ما لو ورث دينا على رجل (و) عند قبض (مائتين مع حولان الحول بعده) أي بعد القبض (من) دين ضعيف وهو (بدل غير مال) كمهر ودية، وبدل كتابة وخلع، إلا إذا كان عنده يضم إلى الدين الضعيف

فتح القدير للكمال بن الهمام - ط الحلبي (2/ 167):

‌ففي ‌القوي ‌تجب ‌الزكاة ‌إذا ‌حال ‌الحول ويتراخى الأداء إلى أن يقبض أربعين درهما ففيها درهم وكذا فيما زاد فبحسابه،

      ارسلان نصیر

دارالافتاء ،جامعۃ الرشید ،کراچی

 24 /ذی قعدہ/1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

راجہ ارسلان نصیر بن راجہ محمد نصیر خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب