87628 | زکوة کابیان | ان چیزوں کا بیان جن میں زکوة لازم ہوتی ہے اور جن میں نہیں ہوتی |
سوال
ایسا قرض جس کے متعلق مقروض انکار نہیں کرتا، لیکن کئی سال گزرنے کے باوجود ادا نہیں کرتا، اس کی زکاۃ واجب ہے یا نہیں؟ اور کتنے سال بعد ایسی صورت ناامیدی (مایوسی) میں شمار ہوگی؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
جو قرض وصول ہونے کی امید نہ ہو اس پر زکاۃ فرض نہیں، اگرایسا قرض وصول ہوجائے تو گزشتہ سالوں کی زکاۃ بھی فرض نہ ہوگی،وصول ہونے کے بعد نئے حساب و نصاب کے ساتھ سال پورا ہونے پر زکاۃ لازم ہو گی، البتہ اگر کوئی ادائیگی کا وعدہ کرتا ہے اور پھر وہ تنگدستی کی وجہ سے ادائیگی نہیں کر پاتا اور اس کے حال سے ظاہر یہ ہو کہ وہ نیک نیتی سے کہہ رہا ہے اور استطاعت ہونے پر قرض اداء کردے گا تو اُس میں فوری طور پرقرض خواہ پرزکاۃ کی ادئیگی ضروری نہیں، البتہ جتنی رقم وصول ہوگی اس میں گزشتہ سالوں کی زکاۃ کا حساب کرکےزکاۃ ادا کرنا واجب ہوگا۔نیز شریعت نے اس بارے میں کسی خاص مدت کی قید نہیں لگائی کہ اتنے سال گزرنے کے بعد مایوسی شمار ہو گی، بلکہ اس کا دارومدار غالب گمان پر ہے کہ اگر قرائن سے اس بات کا غالب گمان ہو کہ وہ قرض ادا نہیں کرے گا تو یہ صورت مایوسی میں شمار ہو گی اور مایوسی زائل ہونے کے بعد جب قرض وصول ہو گا تو نئے حساب و نصاب کے ساتھ سال پورا ہونے پر زکاۃ لازم ہو گی۔
حوالہ جات
حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي (2/ 266):
لو كان له دين على وال وهو مقر به إلا أنه لا يعطيه وقد طالبه بباب الخليفة فلم يعطه فلا زكاة فيه،
حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي (2/ 267):
(ولو كان الدين على مقر مليء أو) على (معسر أو مفلس) أي محكوم بإفلاسه (أو) على (جاحد عليه بينة) وعن محمد لا زكاة، وهو الصحيح، ذكره ابن ملك وغيره لأن البينة قد لا تقبل (أو علم به قاض) سيجيء أن المفتى به عدم القضاء بعلم القاضي (فوصل إلى ملكه لزم زكاة ما مضى)
الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (3/ 1795):
ولا في دين جحده المديون سنين ولا بينة له عليه، ثم توافرت له بينة بأن أقر بعدها عند قوم، ولا على ما أخذه مصادرة، أي ظلما ثم وصل إليه بعد سنين. أما لو كان الدين على مقر مليء أوعلى معسر أو مفلس (محكوم بإفلاسه) أو على جاحد عليه بينة، فعليه الزكاة على ما مضى،
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 9):
ولنا ما روي عن علي رضي الله عنه موقوفا عليه ومرفوعا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: «لا زكاة في مال الضمار» وهو المال الذي لا ينتفع به مع قيام الملك مأخوذ من البعيرالضامرالذي لاينتفع به لشدة هزاله مع كونه حيا،
الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص: 73):
وغالب الظن عندهم ملحق باليقين ، وهو الذي يبتنى عليه الأحكام يعرف ذلك من تصفح كلامهم في الأبواب ، صرحوا في نواقض الوضوء بأن الغالب كالمتحقق ، وصرحوا في الطلاق بأنه إذا ظن الوقوع لم يقع ، وإذا غلب على ظنه وقع.
ارسلان نصیر
دارالافتاء ،جامعۃ الرشید ،کراچی
24 /ذی قعدہ/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | راجہ ارسلان نصیر بن راجہ محمد نصیر خان | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب |