03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قسطوں  کی  صورت میں حاصل ہونے والی رقم پر زکاۃ
87630زکوة کابیانان چیزوں کا بیان جن میں زکوة لازم ہوتی ہے اور جن میں نہیں ہوتی

سوال

 ایسی بیع جس کی قیمت کئی سالوں بعد قسطوں میں وصول ہونا طے پائے، اس کی زکاۃ کس طرح ادا کی جائے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جو رقم واجب الوصول تجارتی قرض کے طور پر گاہک کے ذمہ لازم ہوتی ہے،دین قوی کہلاتا ہے۔اس قسم کے قرض کا حکم یہ ہے کہ اگر یہ  رقم بذاتِ خود یا دوسرے مال کے ساتھ مل کر نصاب کو پہنچ رہی ہوتواس کی زکاۃ دینا واجب ہے، اوروصول ہونے سے پہلے گزرے ہوئے تمام سالوں کی زکاۃ بھی  فرض ہے۔جس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر آپ پہلے سے صاحبِ نصاب ہیں توجتنی رقم بھی ان اقساط سے وصول ہوتی جائے اس کودیگر اموال کے ساتھ ملا کر ہر سال کی زکاۃساتھ ساتھ اداء کرنا ضروری ہے، اگر کسی سال زکاۃ کی مقرر تاریخ تک کچھ وصول نہ ہو تو آئندہ سال وصول ہونے والی مقدار کی دو سال کی زکاۃ اداء کریں،اور اگر آپ پہلے سےصاحبِ نصاب نہ بھی ہو ں توچونکہ یہ قرض بقدرِ نصاب ہے،لہٰذاجب نصاب (35ء612 گرام چاندی کی قیمت)کے پانچویں حصہ(122.35) کے بقدر قرض وصول ہو جائے تو زکاۃلازم  ہے  ،اور اگرایک سے زائد سال گزر جائے تو گزشتہ تمام سالوں کی زکاۃ اداء کرنا لازم ہے۔ اگر قرض وصول ہونے سے پہلے زکاۃ دی تو بھی حرج نہیں، ا ور آسانی بھی اسی میں ہے۔ نیز اگر قسطوں کی مد میں ملنے والی رقم کی  مکمل وصولیابی  کے بعد زکوۃ ادا کرنی ہو، تو اس کی بھی اجازت ہے، لیکن ایسے میں گزشتہ تمام سالوں کی زکاۃ کا حساب کر کے ادا کرنا لازم ہو گا، ہاں ہر سال کے نصاب سے گزشتہ سالوں کی مقدار زکاۃ رقم کو منہا کر کے زکاۃ کا حساب کیا جائے گا۔

حوالہ جات

الفتاوی الھندیۃ(1/175):

(ومنها حولان الحول على المال) العبرة في الزكاة للحول القمري كذا في القنية، وإذا كان النصاب كاملا في طرفي الحول فنقصانه فيما بين ذلك لايسقط الزكاة، كذا في الهدايہ.

حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي (2/ 305):

اعلم ‌أن ‌الديون ‌عند ‌الإمام ‌ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصابا وحال الحول، لكن لا فورا بل (عند قبض أربعين درهما من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهما يلزمه درهم.

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1/ 195) :

لأن الديون عندهما على ضربين ديون مطلقة وديون ناقصة والناقص هو بدل الكتابة والدية على العاقلة وما سواهما فديون مطلقة فالحكم فيها أنه تجب الزكاة في الدين المطلق فلا يجب الأداء ما لم يقبض فإذا قبض منها شيئا قل أو كثر يؤدي بقدر ما قبض.

الفتاوى العالمكيرية = الفتاوى الهندية (1/ 176):

ويجوز تعجيل الزكاة بعد ملك النصاب، ولا يجوز قبله كذا في الخلاصة.... وكما يجوز التعجيل بعد ملك نصاب واحد عن نصاب واحد يجوز عن نصب كثيرة كذا في فتاوى قاضي خان.... ويجوز التعجيل لأكثر من سنة لوجود السبب كذا في الهداية.

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 9):

ومنها الملك المطلق وهو أن يكون مملوكا له رقبة ويدا وهذا قول أصحابنا الثلاثة.... وتجب الزكاة في الدين مع عدم القبض، وتجب في المدفون في البيت فثبت أن الزكاة وظيفة الملك والملك موجود فتجب الزكاة فيه إلا أنه لا يخاطب بالأداء للحال لعجزه عن الأداء لبعد يده عنه وهذا لا ينفي الوجوب كما في ابن السبيل.

    ارسلان نصیر

دارالافتاء ،جامعۃ الرشید ،کراچی

 24 /ذی قعدہ 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

راجہ ارسلان نصیر بن راجہ محمد نصیر خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب