03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قسطوں میں ادا کئے جانے والے قرض پر زکاۃ
87632زکوة کابیانان چیزوں کا بیان جن میں زکوة لازم ہوتی ہے اور جن میں نہیں ہوتی

سوال

 قسطوں میں ادا کئے جانے والے قرض کی صورت میں زکاۃ کی ادائیگی کے وقت کتنی قسطیں منہا کی جا سکتی ہیں؟  پوری باقی رقم یا صرف ایک سال کی قسطیں؟ ان دونوں کے درمیان اصول کیا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بطور تمہید واضح ہو کہ زکاۃ کی فرضیت کے لیے مال کا نصاب کے برابر اور ضروریاتِ اصلیہ سے زائد ہونا شرط ہے۔ چونکہ قرض کی ادائیگی ضروریاتِ اصلیہ میں شامل ہے، اس لیے عام طور پر قرض مال سے منہا کیا جاتا ہے۔ مگر موجودہ دور میں تجارتی قرضے اکثر بڑے پیمانے پر لیے جاتے ہیں، اور اگر پورا قرض منہا کیا جائے تو اکثر تاجروں پر زکاۃ واجب ہی نہ ہوگی، جو کہ زکاۃ کے مقصد کے خلاف ہے۔لہذا قسطوں  میں ادا کیے جانے والے قرض کی صورت میں تفصیل یہ ہے کہ اگر قرض لے کر مال تجارت حاصل کیا  ہے تو زکاۃ ادا کرتے وقت سارا قرضہ منہا کیا جائے گا،اور اگر قرض سے مال تجارت نہیں خریدا، بلکہ ایسا سامان خریدا ہو  جس پر زکاۃ واجب نہیں ہوتی (مثلا مشینری وغیرہ جو بیچنے کے لیے نہیں ہوتی)تو  صرف ایک سال کی قسطیں منہا کی جائیں گی، باقی  پوری رقم منہا نہیں کی جائے گی۔

حوالہ جات

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 14):

قوله: صلى الله عليه وسلم «‌لا ‌ثنى في الصدقة» أي: لا تؤخذ الصدقة مرتين

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، (6/2):

وقال بعض مشايخنا: إن المؤجل لا يمنع؛ لأنه غير مطالب به عادة، فأما المعجل فيطالب به عادة فيمنع.

حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي (2/ 260):

) قوله فارغ عن دين) بالجر صفة نصاب، وأطلقه فشمل الدين العارض كما يذكره الشارح ويأتي بيانه، وهذا إذا كان الدين في ذمته قبل وجوب الزكاة، فلو لحقه بعده لم تسقط الزكاة لأنها ثبتت في ذمته فلا يسقطها ما لحق من الدين بعد ثبوتها جوهرة

 الاختیار لتعلیل المختار(1/ 8):

ولا تجب الا علی الحر المسلم العاقل البالغ اذا ملک نصاباً خالیاً  عن الدین فاضلاً  عن حوائجہ الاصلیۃ ملکاًتاماًفی طرفی الحول .

الحاوی الکبیر ۔الماوردی (3/ 663):

قال الشافعی رحمہ اللہ تعالیٰ :ـــ واذا کانت لہ مائتادرھم وعلیہ مثلھا ، فاستعدی علیہ السلطان قبل الحول ولم یقض علیہ بالدین حتی حال الحول ، اخرج زکاتھا ثم قضٰی غرماء ہ بقیتھا .    

   ارسلان نصیر

دارالافتاء ،جامعۃ الرشید ،کراچی

 24 /ذی قعدہ/1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

راجہ ارسلان نصیر بن راجہ محمد نصیر خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب