87328 | طلاق کے احکام | وہ اسباب جن کی وجہ سے نکاح فسخ کروانا جائز ہے |
سوال
جس عورت کاشوہرلاپتہ ہوجائے، اس کےلیے چار سال تک انتظار کرنا مشکل ہو اور اس کے فتنے میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہوتو کیا ایسے خطرناک موقع پر قاضی ایک سال تک انتظار کا فیصلہ کرسکتا ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
ایسی صورت میں عدالت میں مقدمہ کی درخواست دائرہونے سے پہلے تک عورت سال بھر انتظار کرچکی ہواور درخواست دائر ہونے کے بعدعدالت اپنی ذاتی مکمل تحقیق وجستجوکے باوجودشوہر کے ملنے سے ناامید ہوچکی ہو تو عورت کی طرف سے عدالت میں اتنی مدت سے شوہر کے غائب ہونے کوشرعی گواہوں کے ذریعہ ثابت کرنے اور بغیر شوہر کے اپنی عفت قائم نہ رکھ سکنے پر قسم کھانے کے بعد قاضی فسخ نکاح کافیصلہ کرسکتا ہے اوراگر اتنی مدت قاضی کے فیصلے تک گزرجائےتو بھی فسخ نکاح کافیصلہ درست قرار دیا جائے گا،ورنہ ایک سال کے انتظار کے بعد ہی نکاح فسخ کیا جاسکتا ہے،نیزایسی صورت میں عدالت فسخ نکاح کے علاوہ شوہر کی طرف خود بھی طلاق دے سکتی ہے اور عورت کواوپر طلاق واقع کرنے کا اختیار بھی دے سکتی ہے، اور عورت کے اپنے آپ کو طلاق دینے کے بعد عدالت اس طلاق کونافذ کردے گی اور یہ طلاق رجعی ہوگی،لہذاعدت کے اندر شوہر دوبارہ آجائے تو اسے رجوع کا حق ہوگا۔
واضح رہے کہ ایسی صورت میں عورت عدت وفات کے بجائے عدت طلاق گزارے گی ۔
حوالہ جات
حاشية الدسوقي على الشرح الكبير - (ج 10 / ص 123)
( فيؤجل الحر أربع سنين إن دامت نفقتها ) من ماله وإلا طلق عليه لعدم النفقة
حاشية الصاوي على الشرح الصغير - (ج 6 / ص 69)
( ودامت نفقتها ) : من ماله بأن ترك لها ما تنفق على نفسها منه ، وإلا فلها التطليق عليه لعدم النفقة
قوله : [ ودامت نفقتها ] : أي ولم تخش العنت وإلا فتطلق عليه للضرر فهي أولى من معدومة النفقة كذا قال الأشياخ .
حاشية الصاوي على الشرح الصغير - (ج 6 / ص 69)
( وتعتد زوجة المفقود ) حرة أو أمة صغيرة أو كبيرة ( في أرض الإسلام ) ، متعلق بالمفقود ( عدة وفاة ) على ما تقدم ، ابتداؤها بعد الأجل الآتي بيانه
منح الجليل شرح مختصر خليل - (ج 9 / ص 260)
( ثم ) بعد التلوم وعدم وجدان النفقة والكسوة ( طلق ) بضم فكسر مثقلا عليه ويجري فيه قوله فهل يطلق الحاكم أو يأمرها به ثم يحكم قولان إن كان حاضرا بل ( وإن ) كان ( غائبا ) ومعنى ثبوت عسر الغائب عدم وجود ما يقابل النفقة بوجه من الوجوه .
ابن الحاجب حكم الغائب ولا مال له حاضر حكم العاجز .
ابن عبد السلام يعني أن الغائب البعيد الغيبة وليس له مال أو له مال لا يمكنها الوصول إليه إلا بمشقة حكمه حكم العاجز الحاضر .ابن عرفة
منح الجليل شرح مختصر خليل - (ج 9 / ص 262)
( وله ) أي الزوج المطلق عليه لعدم النفقة ( الرجعة ) للزوجة المطلقة ؛ لأنه طلاق رجعي ابن عرفة
وفی آخر فتوی العلامۃ الفاھاشم رحمہ اللہ تعالی مفتی المالکیۃ بالمدینۃ المنورۃ زادھا اللہ شرفا: فیقول الحاکم فسخت نکاحہ او طلقتک منہ او یامرھا بذالک ثم یحکم بہ وھذا(التطلیق) بعد التلوم بنحو شھر اوباجتھادہ عند المالکیۃ( یعنی فی صورۃ عدم النفقۃ) ۔۔۔۔۔۔۔وان کان لخوفھا الزنا وتضررھا بعدم الوطی والعناد مع وجود النفقۃ والغنافبعد صبرھا سنۃ فاکثر عند المالکیۃ اھ(الحیلۃ الناجزۃ:ص۱۸۱)
نواب الدین
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
یکم ذیقعدہ۱۴۴۶ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | نواب الدین | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |