03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عیدگاہ میں جانے کےبجائے کچھ لوگوں کا مسجدمیں نمازِعید ادا کرنا
87647نماز کا بیانجمعہ و عیدین کے مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر ایک شہر یا قصبے میں کچھ لوگ عید گاہ میں عید کی نماز پڑھے اور باقی لوگ اپنی اپنی مساجد میں پڑھیں تو کیا مساجد میں عید کی نماز پڑھنے والے ترک سنت کے مرتکب ہوں گے یا نہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر عیدگاہ آبادی سے باہر ہے تو اسے چھوڑ کر بلا عذر گاؤں کی مسجد میں عید کی نماز پڑھنے کی عادت بنانا خلافِ سنت ہے؛ اگرچہ نماز ادا ہو جائے گی۔ البتہ اگر وہ عیدگاہ اب آبادی کے اندر آ چکی ہو تو اس کا حکم عام مساجد کا ہوگا۔ اس صورت میں اپنی مسجد میں نماز پڑھنا ترکِ سنت نہیں کہلائے گا۔ اگرچہ اس کے باوجود بہتر یہی ہے کہ مسلمانوں کی اجتماعیت قائم رکھنے کے لیے عیدگاہ ہی میں نماز ادا کی جائے۔

حوالہ جات

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 171)

لو صلى العيد في الجامع، ولم يتوجه إلى المصلى فقد ترك السنة.

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (6/ 4)

المسنون في صلاة العيد الخروج إلى الجبانة فكان أصلا والآخر كالخلف عنه.

والخروج إلیھا أی الجبانۃ لصلاۃ العید سنۃ وإن وسعہم المسجد الجامع ھو الصحیح ۔( رد المحتار، کتاب الصلوٰۃ ، باب صلاۃ العیدین ، زکریا ۳/۴۹، کراچی ۲/۱۶۹، المحیط البرھاني ، المجلس العلمي ۲/۴۸۴، رقم: ۲۲۴۱، زاد المعاد ۱/۴۴۱، ھندیہ، زکریا جدید۱/۲۱۱، قدیم ۱/۱۵۰)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 73)

الأصل في صلاة العيد صلاة من في الجبانة وإنما يصلي من يصلي في المسجد لعذر فوجب اعتبار الأصل دون غيرهم.

المحيط البرهاني في الفقه النعماني (2/ 101)

السنّة في صلاة العيد أن تقام خارج المصر بالجبانة، ولا يمكن للضعفاء الخروج إليها إلا بحرج

عظيم، فجوزنا الإقامة في موضعين دفعاً للحرج.

مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5/ 61)

قد اختلف هل الأفضل في صلاة العيد الخروج إلى الجبانة أي الصحراء أو الصلاة في مسجد البلد إذا كان واسعاً؟ الثاني قول الشافعي، أنه إذا كان مسجد البلد واسعاً صلوا فيه ولا يخرجون، فكلامه يقضي بأن العلة في الخروج طلب الاجتماع، ولذا أمر - صلى الله عليه وسلم - بإخراج العواتق وذوات الخدور، فإذا حصل ذلك في المسجد فهو أفضل، ولذلك فإن أهل مكة لا يخرجون لسعة مسجدها وضيق أطرافها، والقول الأول لمالك وأحمد وأبي حنيفة: إن الخروج إلى الجبانة أفضل ولو اتسع المسجد للناس، وحجتهم محافظته - صلى الله عليه وسلم - على ذلك، ولم يصل في المسجد إلا لعذر المطر، ولا يحافظ - صلى الله عليه وسلم - إلى على الأفضل، وتقدم أن هذا القول هو الراجح عندنا.

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

27/شوال 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب