03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دو طلاقیں دینے کے بعد قانونی طور پر ان کی تنفیذ کی نیت سے طلاق کے پیپر بھیجنے سے تیسری طلاق کا حکم
86030طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

میرا نام طاہر علی ہے،میں ضلع ہری پور خیبر پختونخوا سے ہوں اور روزگار کے سلسلے میں دبئی میں ہوں،میری بیوی سے ناچاقی ہوئی اور میں نے اسے واٹس ایپ پر وائس میں ایک ہی میسج کے ذریعے دو بار طلاق دے دی کہ:

میں طاہر علی ولد عبد الرحمان اپنے ہوش وحواس میں رابعہ علی ولد محمد علی کو طلاق دیتا ہوں۔

میں طاہر علی ولد عبد الرحمان اپنے ہوش وحواس میں رابعہ علی ولد محمد علی کو طلاق دیتا ہوں۔

18اگست 2024 کو میں نے یہ میسج کیا، 22اکتوبر کو میں چھٹی پر پاکستان آیا ،میری واپسی23نومبرکوتھی،4نومبر 2024 کو میں نے رجوع کیا،کچھ اختلافات کی وجہ سے ہماری روزانہ بات ہوتی رہی اور 18 نومبر کو عدت کی مدت تین مہینے پوری ہونے والی تھی،آخر 22نومبرکو ہم دونوں کی ملاقات ہوئی اور ہماری باہمی رضامندی ہوگئی۔

اس میسج کے بعد پاکستانی قانون کے مطابق  میں نے اس کو پہلا طلاق نامہ اول بھیجا اور باقی دوسرےمہینے اور تیسرے مہینے کوئی  کاغذ نہیں دیا۔

 اور شک بھی تھا کہ شاید ہماری صلح نہ ہو تو میں اس کو اپنا پابند نہ کروں اور اس کے ساتھ مجھ سے کوئی ظلم زیادتی نہ ہو،اس وجہ سے میں نے طلاق نامہ سر ٹیفکیٹ کے لئے نیبر ہیڈ کونسل میں اسٹامپ پیپر دیا،جس پر دفتر والوں نے سرٹیفیکیٹ جاری کردیا ہے۔

میں نے ابھی تک دو طلاقیں دی ہیں،جبکہ کاغذ میں لکھ کر صرف  ایک بھیجی ہے جو میری بیوی کو ملی ہے،باقی دو کاغذ نہیں بھیجے،جو پاکستانی قانون کے مطابق اسے بھیجنے چاہیے تھے،میں اب بھی اس سے بات کرتا ہوں،کیا میرا اور اس کا میاں بیوی والا رشتہ قائم ہے؟

ایک مفتی صاحب نے بتایا کہ رجوع ہو گیا ہےاور ایک طلاق کا حق باقی ہے،پھر بھی انھوں نے آپ کا نمبر دیا ہے کہ آپ سے رابطہ کر کے تحریری فتویٰ لے لوں تو زیادہ بہتر ہوگا،مہربانی فرماکر میری راہنمائی فرمائیں۔

تنقیح:سائل نے وضاحت کی ہے کہ وائس میسج کے بعد بیوی کو طلاق کے کاغذات بھیجنے کا مقصد تیسری طلاق دینا نہیں تھا،بلکہ سابقہ دی گئی طلاقوں کے حوالے سے قانونی کاروائی کی تکمیل تھی اور یہ بات بیوی کے علم  میں بھی تھی۔

نیز واٹسپ پر دو طلاقوں کے وائس میسج  اور پہلی طلاق کے پیپربھیجنے کے بعد رجوع کرنے تک بیوی کو صرف ایک بار ماہواری آئی تھی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بیوی کو واٹس ایپ پر بھیجے گئے میسج کے ذریعے تو دو رجعی طلاقیں واقع ہوگئی تھیں ،جبکہ اس کے بعد تحریری طور پر بھیجے گئے طلاق کے کاغذ کے ذریعے اگر سابقہ دی گئیں طلاقوں ہی کی قانونی طور پر تنفیذ مقصود تھی،تیسری طلاق دینے کا ارادہ اور نیت نہیں تھی اور بیوی کو بھی اس بات کا علم تھا تو پھر اس کے ذریعے مزید کوئی طلاق توواقع نہیں ہوئی،کیونکہ اس تحریر کے عنوان اور الفاظ کے لحاظ سے آپ کی نیت خلافِ ظاہر نہیں،لیکن طلاق صریح کے ساتھ جب ایسے کنایہ الفاظ بولے جائیں جن میں سابقہ صریح طلاق کی توضیح،تفسیر اور اس کے حکم کے بیان کا احتمال موجود ہو اور شوہر نے ان الفاظ سے دوسری طلاق کی نیت نہ کی ہو تو ایسی صورت میں صریح الفاظ کے ذریعے واقع ہونے والی رجعی طلاق بائن بن جاتی ہے۔("امداد المفتین":2/ 523)

چونکہ آپ نے واٹس ایپ پر دی گئی طلاقوں کی قانونی طور پر تنفیذ کے لئے جو کاغذ بیوی کو بھیجا ہے اس میں صرف وہی الفاظ درج نہیں جو آپ نے واٹس ایپ پر بیوی کو میسج میں کہے تھے،بلکہ طلاق کے صریح الفاظ کے بعد حرمت کی تصریح بھی کی گئی ہے کہ مسماة رابعہ علی دختر محمد علی آج کے بعد مجھ پر حرام ہے،لہذا اس کی وجہ سے سابقہ رجعی طلاقیں بائن بن چکی تھیں اور طلاق بائن کا حکم یہ ہے کہ میاں بیوی کے دوبارہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے لئے نئے مہر کے ساتھ نیا نکاح کرنا پڑتا ہے،تجدیدِ نکاح کے بغیر صرف زبانی یا عملی طورپر رجوع کافی نہیں ہوتا۔

اس لئے مذکورہ صورت میں اگر آپ دونوں دوبارہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا چاہتے ہیں تو بیوی کی رضامندی کے ساتھ نئے مہر کے ساتھ نیا نکاح کرنا پڑے گا،لیکن تجدید نکاح کے بعد آپ کے پاس صرف ایک طلاق کا اختیار ہوگا،جس کے بعد بیوی آپ پر حرمت غلیظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی اور تجدیدِ نکاح بھی ممکن نہیں رہے گی۔

حوالہ جات

"الدر المختار " (3/ 248):

(ويقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح،ويدخل نحو طلاغ وتلاغ وطلاك وتلاك أو " ط ل ق " أو " طلاق باش " بلا فرق بين عالم وجاهل، وإن قال تعمدته تخويفا لم يصدق قضاء إلا إذا أشهد عليه قبله وبه يفتى؛ولو قيل له: طلقت امرأتك فقال: نعم أو بلى بالهجاء طلقت. بحر.

 (واحدة رجعية،وإن نوى خلافها) من البائن أو أكثر خلافا للشافعي. (أو لم ينو شيئا) ولو نوى به الطلاق عن وثاق دين إن لم يقرنه بعدد ولو مكرها صدق قضاء أيضا كما لو صرح بالوثاق أو القيد، وكذا لو نوى طلاقها من زوجها الأول على الصحيح خانية ولو نوى عن العمل لم يصدق أصلا ولو صرح به دين، فقط".

قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ :" (قوله: أو لم ينو شيئا) لما مر أن الصريح لا يحتاج إلى النية، ولكن لا بد في وقوعه قضاء وديانة من قصد إضافة لفظ الطلاق إليها عالما بمعناه ولم يصرفه إلى ما يحتمله كما أفاده في الفتح، وحققه في النهر، احترازا عما لو كرر مسائل الطلاق بحضرتها، أو كتب ناقلا من كتاب امرأتي طالق مع التلفظ، أو حكى يمين غيره فإنه لا يقع أصلا ما لم يقصد زوجته، وعما لو لقنته لفظ الطلاق فتلفظ به غير عالم بمعناه فلا يقع أصلا على ما أفتى به مشايخ أوزجند صيانة عن التلبيس وغيرهم من الوقوع قضاء فقط، وعما لو سبق لسانه من قول أنت حائض مثلا إلى أنت طالق فإنه يقع قضاء فقط، وعما لو نوى بأنت طالق الطلاق من وثاق فإنه قضاء فقط أيضا. وأما الهازل فيقع طلاقه قضاء وديانة ؛لأنه قصد السبب عالما بأنه سبب فرتب الشرع حكمه عليه ،أراده أو لم يرده كما مر، وبهذا ظهر عدم صحة ما في البحر والأشباه من أن قولهم: إن الصريح لا يحتاج إلى النية، إنما هو القضاء.

أما في الديانة فمحتاج إليها أخذا من قولهم: ولو نوى الطلاق عن وثاق أو سبق لسانه إلى لفظ الطلاق يقع قضاء فقط أي لا ديانة؛ لأنه لم ينوه. وفيه نظر ؛لأن عدم وقوعه ديانة في الأول ؛لأنه صرف اللفظ إلى ما يحتمله، وفي الثاني لعدم قصد اللفظ، واللازم من هذا أنه يشترط في وقوعه ديانة قصد اللفظ وعدم التأويل الصحيح. أما اشتراط نية الطلاق فلا بدليل أنه لو نوى الطلاق عن العمل لا يصدق ويقع ديانة أيضا كما يأتي مع أنه لم ينو معنى الطلاق وكذا لو طلق هازلا.

 (قوله: دين) أي تصح نيته فيما بينه وبين ربه تعالى؛ لأنه نوى ما يحتمله لفظه فيفتيه المفتي بعدم الوقوع. أما القاضي فلا يصدقه ويقضي عليه بالوقوع؛ لأنه خلاف الظاهر بلا قرينة.....

 (قوله: صدق قضاء أيضا) أي كما يصدق ديانة لوجود القرينة الدالة على عدم إرادة الإيقاع، وهي الإكراه ط".

"البحر الرائق " (3/ 264):

"ولو أقر بالطلاق وهو كاذب وقع في القضاء اهـ.

وصرح في البزازية بأن له في الديانة إمساكها إذا قال أردت به الخبر عن الماضي كذبا، وإن لم يرد به الخبر عن الماضي أو أراد به الكذب أو الهزل وقع قضاء وديانة واستثنى في القنية من الوقوع قضاء ما إذا شهد قبل ذلك لأن القاضي يتهمه في إرادته الكذب فإذا أشهد قبله زالت التهمة".

"البحر الرائق " (9/ 302):

"قوله : ( أنت طالق بائن أو ألبتة أو أفحش الطلاق أو طلاق الشيطان أو البدعة أو كالجبل أو أشد الطلاق أو كألف أو ملء البيت أو تطليقة شديدة أو طويلة أو عريضة فهي واحدة بائنة إن لم ينو ثلاثا ) بيان للطلاق البائن بعد بيان الرجعي وإنما كان بائنا في هذه لأنه وصف الطلاق بما يحتمله وهو البينونة فإنه يثبت به البينونة قبل الدخول للحال وكذا عند ذكر المال وبعده إذا انقضت العدة .....

 قيد بكون بائن صفة بلا عطف ؛لأنه لو قال : أنت طالق وبائن أو قال أنت طالق ثم بائن وقال: لم أنو بقولي بائن شيئا فهي رجعية ولو ذكر بحرف الفاء،والباقي بحاله فهي بائنة،كذا في الذخيرة.

وأفاد بقوله: فهي واحدة إن لم ينو ثلاثا أنه لو نوى ثنتين لا يصح لكونه عددا محضا إلا إذا عنى بأنت طالق واحدة وبقوله: بائن أو ألبتة أو نحوهما أخرى ،يقع تطليقتان بناء على أن التركيب خبر بعد خبر وهما بائنتان ؛لأن بينونة الأولى ضرورة بينونة الثانية ؛إذ معنى الرجعي كونه بحيث يملك رجعتها وذلك منتف باتصال البائنة الثانية فلا فائدة في وصفها بالرجعية وكل كناية قرنت بطالق يجري فيها ذلك".

"خلاصة الفتاوی"(9/ 302):

"وفی الفتاوی: لوقال لامرأتہ:أنت طالق ثم قال للناس: زن من حرام ست وعنی بہ ،أو لانیة لہ فقد جعل الرجعی بائنا وإن عنی بہ الابتداء فھی طلاق آخر بائن ".

"رد المحتار" (3/ 308):

"وإذا طلقها تطليقة بائنة ثم قال لها في عدتها: أنت علي حرام أو خلية أو برية أو بائن أو بتة أو شبه ذلك وهو يريد به الطلاق لم يقع عليها شيء؛ لأنه صادق في قوله: هي علي حرام وهي مني بائن اهـ أي لأنه يمكن جعل الثاني خبرا من الأول".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

20/جمادی الثانیہ 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب