| 87951 | حج کے احکام ومسائل | حج کے جدید اور متفرق مسائل |
سوال
محترم مفتیانِ کرام دامت برکاتہم!السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته!
ایک اہم اور فقہی لحاظ سے نازک مسئلہ میں راہنمائی مطلوب ہے،جیسا کہ حج کے دن، 9 ذو الحجہ کو میدانِ عرفات میں مسجد نمرہ میں خطبۂ حج اور نمازِ ظہر و عصر جمع تقدیم کے ساتھ پڑھائی جاتی ہے، اور عملاً یہ دیکھا گیا ہے کہ مسجد نمرہ کے امام اکثر مقیم ہوتے ہیں (یعنی وہ مکہ مکرمہ یا حدودِ حرم میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ قیام کا ارادہ رکھتے ہیں)؛باوجود مقیم ہونے کے، وہ نمازِ ظہر و عصر کو جمع اور قصر کے ساتھ پڑھاتے ہیں؛اس کی توجیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ وہ فقہ مالکی کے مطابق عمل کرتے ہیں، کیوں کہ مالکیہ کے نزدیک شعائرِ حج کے تحت یومِ عرفہ میں قصر اور جمع بین الصلاتین مشروع و سنت ہے۔اس پس منظر میں ہمارا سوال یہ ہے:
کیا ایک حنفی مقتدی کے لیے ایسے مقیم امام کے پیچھے اقتداء جائز ہے جو قصر کر رہا ہو اور فقہ مالکی پر عمل کر رہا ہو؟جبکہ فقہ حنفی کے مطابق مقیم پر قصر جائز نہیں، تو کیا ایسا امام نماز کی شرائطِ صحت میں خلل ڈال رہا ہے؟
اگر امام مقیم ہونے کے باوجود دو رکعت پڑھائے، تو کیا حنفی مقتدی کے لیے اس کے پیچھے دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دینا درست ہوگا؟ یا اسے اپنی باقی رکعتیں مکمل کرنی ہوں گی؟
کیا شعائرِ حج کی رعایت میں فقہ مالکی کے مطابق قصر کرنا حنفی امام یا مقتدی کے لیے درست ہے، یا اس میں کراہت یا ممانعت آئے گی؟
اگر امام کا عمل خلافِ اولیٰ یا خلافِ سنت ہو تو مقتدی کی نماز پر کیا اثر پڑے گا؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگر تحقیقی طور پر معلوم ہو جائے کہ مسجد نمرہ میں امام مقیم ہونے کے باوجود قصر کرتے ہیں،تو ان کی اقتداء میں حنفی
مقتدیوں کی نماز صحیح نہیں ہوگی،چونکہ عموماً یہاں کے ائمہ مکہ یا کسی قریب کے علاقے سے آئے ہوتے ہیں اور حنفی
مسلک کے مطابق مقیم ہوتے ہیں، مسافر نہیں ہوتے، اس لیے ان پر ظہر، عصر اور عشاء کی نمازیں پوری پوری پڑھنا لازم ہوتا ہے ،مگر وہ اپنے مسلک کے مطابق قصر پڑھاتے ہیں، اس لئے ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے نماز نہیں ہوتی، حنفی مقتدی نہ تو دورکعت پر ان کے ساتھ سلام پھیر سکتے ہیں،اور نہ ہی ان کے سلام کے بعد اپنی دورکعتیں مکمل کرسکتے ہیں،لہٰذا حنفی مسلک سے تعلق رکھنے والوں کو ان کے پیچھے نماز پڑھنے کے بجائے اپنے خیمے میں ظہرکی نماز ظہر کے وقت اور عصر کی نماز عصر کے وقت پڑھنی چاہیے۔
حوالہ جات
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 152):
فأما الظهر والعصر فهما على حالهما لم يتغيرا؛ لأنهما كظهر سائر الأيام، وعصر سائر الأيام، والحادث ليس إلا اجتماع الناس، واجتماعهم للوقوف لا للصلاة، وإنما اجتماعهم في حق الصلاة حصل اتفاقا ثم إن كان الإمام مقيما من أهل مكة يتم كل واحدة من الصلاتين أربعا أربعا، والقوم يتمون معه، وإن كانوا مسافرين؛ لأن المسافر إذا اقتدى بالمقيم في الوقت يلزمه الإتمام؛ لأنه بالاقتداء بالإمام صار تابعا له في هذه الصلاة، وإن كان الإمام مسافرا يصلي كل واحدة من الصلاتين ركعتين ركعتين، فإذا سلم يقول لهم: أتموا صلاتكم يا أهل مكة فإنا قوم سفر.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 98):
وذكر في كتاب المناسك أن الحاج إذا دخل مكة في أيام العشر ونوى الإقامة خمسة عشر يوما أو دخل قبل أيام العشر لكن بقي إلى يوم التروية أقل من خمسة عشر يوما ونوى الإقامة لا يصح؛ لأنه لا بد له من الخروج إلى عرفات فلا تتحقق نية إقامته خمسة عشر يوما فلا يصح.
سید نوید اللہ
دارالافتاء،جامعۃ الرشید
30/ ذیقعدہ 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید نوید اللہ | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |


