03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
فناء جہنم کے موقف کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ اور قائل اور مؤول کی فقہی حیثیت
87723ایمان وعقائدایمان و عقائد کے متفرق مسائل

سوال

کیا  فرماتےہیں مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ جمہور امت مسلمہ کا اجماعی عقیدہ ہے کہ جنت اور جہنم اب بھی موجود ہیں اور مؤمنین کے جنت  اور کفار کے جہنم میں داخلہ کے بعد بھی  یہ دونوں ہمیشہ کے لیے باقی رہیں گے، اہل جنت ہمیشہ  تنعم وعیش وسرور میں، جبکہ اہل جہنم ہمیشہ عذاب و تکلیف میں مبتلا رہیں گے، جبکہ فی زمانہ بعض ملحدین کا کہنا ہے کہ یہ عقیدہ اللہ تعالی کی صفت عدل کے منانی ہے، اس لئے کہ سزا جرم کے مناسب ہونی چاہیے، جبکہ محدود جرم کی سزا لا محدود قرار دینا عدل  کے منافی ، بلکہ ظلم کے زمرے میں داخل ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالی ظلم سے پاک ہے۔ لہذا وہ لوگ کفار کے مقررہ عذاب بھگتنےکے بعد جہنم کے فناء کے قائل ہیں  اور اس بارے میں  قرآن مجید کی بعض     آیات مثلا خالدین فیھا   ما دامت السموات والارض الا ماشاء ربک اورلابثین فیھا احقابا وغیرہ  آیات سے اور بعض   احادیث مثلا لیاتین علی جهنم زمان لیس فیھا احد   وغیرہ روایات وآثار صحابہ  سےاستدلال کرتے ہیں نیز عقلی استدلال بھی  پیش کرتے ہیں کہ عذاب و سزاسے مقصود تو انز جارہے  اورعذاب جہنم کا باعث  انزجار ہونے میں کلام نہیں، لہذا متعلقہ مدت سزا کے بعد بقاء جہنم کا قول   خلاف حکمت ومصلحت  ہونے کے باعث درست نہیں۔ لہذا اس بارے میں درج ذیل چند  سوالات کے جوابات مطلوب ہیں۔

۱۔جمہور کے موقف کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ کیا یہ عقائد اصولیہ میں سے ہے یا کہ عقائد فرعیہ میں سے ؟ نیز یہ عقیدہ ضروریات دین میں سے ہےیا کہ نہیں ؟

۲۔  جمہور کے موقف  کے برعکس فناء جہنم کے عقیدہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟اور ان کے قائلین کا شرعی حکم کیا ہے ؟  اور ان کےاستدلالات کا جواب کیا ہوگا؟

۳۔جمہور کے موقف پروارو اعتراضات اورشبہات کےجوابا ت کیا ہونگے؟

۴۔اگر ملحدین کے اعتراض کے جواب میں یہ کہا جائے کہ کفار دخول جہنم  اوراس میں مقررہ وقت تک سزا بھگتنے کے بعد ان کے حق میں متعلقہ عذاب ایک عادت بن جائے گی  جس کی وجہ  سے تکلیف  نہ رہے گی لہذا جہنم باقی تو رہے گا۔ لیکن سزا سے تعذیب لازم  نہیں آئے گی ، اس طرح قول کرنا  شرعاکیسا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

تمہید جواب:جواب سے پہلے بطور تمہید چند اصولی باتوں کو پیش نظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔

(۱)احکام شرعیہ (خواہ اصولی ہوں یا فروعی) ان کا مدار محض نقل  صحیح پر ہے، لہذا محض عقل کا احکام شرعیہ کے اثبات و ایجاب میں کوئی کردار اور دخل نہیں اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں   اور دلیل اس اصول کی آیت: وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا مَا كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَكِنْ جَعَلْنَاهُ نُورًا نَهْدِي بِهِ مَنْ نَشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ   ہے۔

چنانچہ  محض عقلی مقدمات پر مشتمل استدلال یا بدون علت مستنبطہ   محض قیاس شرعا  درست  ومعتبر نہیں۔

)۲(نقل صحیح دو قسم پر ہے :۱۔محکمات(معلوم ومتعین المراد) ۲۔متشابہات ( محتمل المراد یا غیر معلوم ا  لمعنی او المراد) اور بنص قرآن ،احکام کے باب میں، بالخصوص عند التعارض محکمات کا اعتبار ہے اور متشابہات محکمات کے مقابلہ میں واجب التاویل یا واجب التوقف ہونگے۔اور دلیل اس کی آیت:هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آَيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آَمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ [آل عمران/7]  ہے۔

چنانچہ اصولی طور پرمحتمل حجت نہیں۔

(۳) نص صحیح صریح کا مقابلہ و معارضہ عقل وقیاس سے باطل محض ہے، چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کے موقع پر ابلیس کا  معارضہ اگر چہ بظا ہر صحیح و معقول استدلال پر ہی تھا ، لیکن نص صریح صحیح کے معارض ہونے کی وجہ سے مردود ہوا ،لہذا یہ واقعہ (ردمعارضہ ابلیس) مذکورہ اصول کے اثبات پر دلالۃ النص ہے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ نص صریح میں احتمالات ناشئہ من غیر دلیل شرعا غیر معتبر اور کالعدم ہیں ۔کما تقرر فی الاصول

(۴)      نقل اور عقل  جب دونوں صریح و صحیح ہوں تو ان میں  تعارض ناممکن ہے،لہذا اگر نقل صحیح صریح ہو تو محض عقل کی وجہ سے اس میں خلاف ظاہر تاویل کی گنجائش نہ ہوگی ، اور نہ  ہی ایسی تاویل شرعامعتبر ہوگی ۔ نیز صورت معارضہ میں عقل و نقل میں سے جو بھی صریح یا صحیح نہ ہو وہ واجب التاویل ہوگا ۔ کما ھو الظاھر والمقرر

(۵)اللہ تعالی کی ذات وصفات و افعال کا مخلوق کی ذات وصفات و افعال پر قیاس درست نہیں، بلکہ فاسد اور لغو محض ہے۔

لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ  [الشورى/11]

لہذا قانون عدل و انصاف یا قانون جزاء و سزاء میں بھی اللہ تعالی کے فعل کو مخلوق کے فعل پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔

لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ [الأنبياء/23] إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ [هود/107]

لہذا نصوص صریحہ صحیحہ سے ثابت امور متعلقہ جزا و سزا کی تاویل کے بجائے خود قانون سزاوجزاکی تشریح واجب التاویل ہوگی ، نیز اللہ تعالی کے حق میں ظلم کے معروف و معہود مفہوم کا تصور بھی ممکن نہیں، اس لیے کہ تمام موجودات کا وجود اس کا محض کرم و فضل ہے اور کسی کا اللہ پر کوئی حق نہیں ۔ لہذا نیکی پر نوازنا اس کا عین فضل و احسان ہے اور کسی جرم پر سزا عین عدل وانصاف ہے۔ چنانچہ اہل جہنم کی سزا کے بعد قرآن مجید میں جابجا اللہ تعالی سے ظلم کی نفی کی گئی ہے ، بلکہ ظلم کی نسبت خود اہل جہنم کی طرف کی طرف کی گئی ہے۔ وماظلمھم الله ولكن كانواانفسهم یظلمون

(۶)     افعال الہیہ معلل با لاغراض نہیں، لیکن متعلق بمصالح العباد والحکم ضرور ہیں ، لیکن ان  حکم ومصالح کا ادراک بالعقل ہونا بھی ضروری نہیں۔ لہذا انتفاءاد راک المصالح   انتقاء المصالح کو مستلزم نہیں۔(کماھو ظا ھر بداهۃ)
 (۷)        احکام قطعیہ بالخصوص عقائد کے بارے میں اعتبار ومدار استدلال نصوص قطعیہ ہی ہو سکتے ہیں۔ نصوص  ظنیہ مدار استدلال نہیں بن سکتے لانه لا عبرة بالظنيات فی باب الاعتقادات کما تقرر فی الاصول، اور یہ اصول در حقیقت  اصل ثانی کے تحت داخل ہے۔

استفتاء میں مذکور پہلے سؤال کا  جواب: (عقیدہ ابدیت عذاب جہنم اور   ادیان سماویہ)

جہنم اور اہل جہنم کے عذاب کی ابدیت جمہور امت بلکہ تمام ادیان سماویہ کا متفقہ اور قطعی و بدیہی عقیدہ ہے، جو قرآن و سنت کی نصوص قطعیہ  (صحیحہ وصریحہ) سے ثابت اور اجماع امت سے مبرھن ہے ۔چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام کی طرف جو پہلی وحی اللہ تعالی کی طرف سے آئی اس میں خلود نی النار کا ذکر موجود ہے۔ وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآَيَاتِنَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ  [البقرة/39]

اسی طرح سورہ اعلی میں اللہ تعالی نے تو حید کے بیان کے بعد منکرین توحید کے لیے اخروی تخویف کے ضمن میں جہنمیوں کے لیے خلود في النار کو نفی موت کے عنوان سے بیان فرمایا : ثُمَّ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَى [الأعلى/13] اور اس کے بعد سورت کے آخر میں مذکورہ جملہ مضامین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ إِنَّ هَذَا لَفِي الصُّحُفِ الْأُولَى (18) صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى  [الأعلى/18، 19]

لہذا یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ مسئلہ نہ صرف یہ کہ امت  محمدیہ کا اجماعی عقیدہ ہے، بلکہ تمام ادیان سماویہ ( جملہ انبیاء  ،جملہ  کتب سابقہ) کا عقيدة ہے۔

قرآن مجید اور ابدیت نار جہنم:

جہنم کے عذاب کی ابدیت قرآن کی کثیر تعداد کی آیات کے اشارتۃالنص اور بعض آیات کی اقتضا النص سے ثابت ہے۔ چنانچہ قرآن مجید کی ۳۴ آیات میں جہنم کے عذاب کے لئے خلود کا ذکر ہے اور چار آیات میں ابدیت کی تصریح بھی ہے ۔ متعدد آیات میں اہل جہنم کے جہنم  سے نہ نکالے جانے کی تصریح موجود ہے اور کئی آیات میں اہل جہنم  سے دخول کے بعد موت کی نفی کی تصریح ہے، اسی طرح متعدد آیات میں دخول جہنم کے بعد عذاب میں انقطاع اورتخفیف کی نفی کی تصریح ہے۔اور سورت طہ میں عذاب جہنم کو اشد و ابقی کہا گیا ہے اور متعدد آیات میں عذاب میں تجدیدوتکریر اور اضافہ در اضافہ ) کی تصریح بھی منقول ہے ۔ لہذا یہ جملہ  انواع کی آیات اہل جہنم کے عذاب کے دو ام  میں اشارۃ النص ہیں، جبکہ خود جہنم کےدوام وابدیت   اور عدم فناء میں اقتضاء النص ہیں۔

واضح رہے  کہ ان آیات میں کی گئی تاویلات فاسدہ  کا جواب انشا الله تعالی اعتراضات کے جوابات کےضمن میں آئے گا۔

نیز مذکورہ  بالاآیات کے علاوہ قرآن مجید میں دیگر متعدد آیات کے اشارہ النص یا اقتضاء النص سےبھی ابد یت عذاب جہنم ثابت ہوتا ہے ۱-سورہ الم السجدہ  میں جہنم کے عذاب کو عذاب الخلد کہا ہے ۔ ۲- سورة حم السجدة   میں دار الخلدجہنم کو کہا گیا ہے۔ ۳۔اسی طرح جہنمیوں کے لیےربنا امتنا اثنتین میں  دو موتوں کا ذکر ہے ،جبکہ عذاب جہنم کے بعد فناء  کی صورت میں تیسری موت کا اثبات بھی لازم آئے گا جو نص قرآنی کے خلاف ہے۔۴۔ اسی طرح قرآن مجید میں جہنم کے عذاب کو مقیم " کی صفت کے ساتھ متصف کیا گیا ہے جو دلیل دوام ہے -۵ - اہل جہنم کو اصحاب النار " کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے اور لفظ اصحاب مصاحبت سے ہے جو ملا زمت  ومداومت پر دال ہے۔( روح المعانی ، بقرہ) وغیرہ ،وغیرہ۔

 واضح رہے کہ لفظ خلود اگر چہ لغۃ ( اہل سنت کے مطابق) خاص مکث کے لیے موضوع نہیں، بلکہ مطلق مکث طویل کیلئے موضوع ہے، خواہ اس کے ساتھ دوام ہو یا نہ ہو ،لیکن اس پر اہل سنت اور معتزلہ سمیت تمام ابل اسلام کا اجماع ہے کہ تخویف و بشارت کی آیات میں خلود  سے مکث دائم  ہی مراد ہے ۔ البتہ معتزلہ  کے نزدیک یہ  خاص بطور معنی موضوع  لہ  ہونے کےہے، جبکہ اہل سنت     کے نزدیک  ایک معنی اعم مطلق کے ایک فرد کے طور پر، اور اس کے مراد ہونے پر قرآن وحدیث کے متعدد دلائل و بر اہین موجود ہیں۔ منجملہ ان قرائن کے خودان آیات  کا سوق بشارت یا تخویف کےلیےہونا ہے۔ اس لئے کہ مقام تخویف یا بشارت میں خلود کو مکث طویل پر حمل کرنا بشارت و تخویف کے غرض و غایت کو متاثر اورکمزور کرتا ہے۔ (روح المعانی،بقرة )

احادیث اور ابدیت عذاب جہنم:

قرآن مجید کے علاوہ احادیث صحیحہ کی ایک کثیر تعداد بھی عذاب جہنم کی ابدیت پر دلالت کرتی ہیں علامہ زاہد کوثری رحمہ

اللہ تعالی مقالات کوثری میں لکھتے ہیں کہ اس بارے میں احادیث کی تعداد شمار سے باہر ہے اور صرف صحاح ستہ اور بالخصوص مجمع الزوائد میں موجود روایات بھی کانی اور شافی ہیں ۔ صحاح ستہ میں سے صحیحین میں ذبح موت کی حدیث میں خلود اہل نار کی تصریح موجود ہے اور یہ روایت حضرت ابو ہريرة اور ابوسعيدخدری اور  عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہم جیسے جلیل القدرحضر ات  صحابہ  کرام سےصحیح اسناد کے ساتھ منقول ہیں اوراپنے مفہوم میں صریح ہیں،نیز صحاح ستہ میں سے امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے باب ماجاء فی خلود اھل الجنۃ والنار قائم فرماکر اس کے تحت یہ روایت نقل فرمائی ہے۔

اجماع امت اور ابدیت عذاب جہنم:

ابدیت عذاب جہنم امت مسلمہ کا ایک متفقہ اور اجماعی عقیدہ ہے چنانچہ مذاہب اربعہ کے فقہاء و ائمہ کے علاوہ تمام اہل اسلام حتی کہ اہل تشیع اور معتز لہ اوراہل ظاہر کا بھی اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں ۔( اس بارسے میں اختلاف اقوال و مذاہب کی تفصیل ان شاء اللہ  آگے مستقل عنوان کے تحت آئے  گی ۔) جبکہ متعدد اہل علم نے اس مسئلہ و عقیدہ کے اجماعی ہونے کی تصریح فرمائی ہے۔ چنانچہ علامہ ابن حزم ظاہری رحمہ اللہ نے اپنی معروف کتاب مراتب الاجماع میں اس کے اجماعی ہونے کی تصریح فرمائی ہے ۔چنانچہ  فرماتے ہیں:

كتاب مراتب الإجماع لابن حزم - (ج 1 / ص 126)

وان النار حق وأنها دار عذاب أبدا لا تفنى ولا يفنى أهلها أبدا بلا نهاية

 اور اس پر علامہ زاہد کو ثری  رحمہ اللہ نے مقالات کو ثری میں لکھا ہے کہ ابن حرم ظاہری جو اجماع کی مخالفت اور انکار میں معردف و مشہور ہے جب ایسا  شخص بھی  کسی اجماع کے اجماعی ہونے کا قائل ہو تو ایسی صورت میں ایسا اجماع یقینا اجماع کے اعلی مرتبہ پر ہوگا، نیز خود علامہ ابن قیم    اور علامہ ابن تیمیہ رحمہما الله تعالی کی بعض عبارات میں بھی اس کی تصریح  ملتی ہے ، (رفع الاستارمع تعلیق البانی رح)نیز شرح عقائد نسفی اورشرح فقہ اکبر ملا علی قاری ، روح المعانی اور تفسیر مظہری میں بھی اسکے اجماعی ہونے کی تصریح موجود ہے۔ جبکہ تفسیر ابن کثیر میں اس کوجمہور اور تفسیر کبیر میں جمہور اعظم کا مذہب قرار دیا ہے۔

واضح رہے کہ جمہورکے لفظ سےدرحقیقت جہمیہ کے اختلاف کی طرف اشارہ مقصود ہےاور علماء نے تصریح  فرمائی ہے کہ ان کے اختلاف کی وجہ سے مسئلہ کی اجماعی حیثیت  متاثر متاثر نہیں ہوتی ۔(شرح عقائد نسفی)

نیز       اس مسئلہ میں اہل سنت میں سے جہمیہ سے قبل کسی  مشہور یا غیر مشہو ر امام کا اختلاف کتب مذاہب و عقائد میں منقول نہیں، اہلسنت میں  سے سب سے  پہلے اس مسئلہ میں باقاعدہ تصنیفی انداز میں علامہ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نے اختلاف  پیش کیا اور اس کو بعض صحابہ کر ام اور بعض تابعین سے منقول بعض مبہم آثار کی بنیاد پر اختلافی مسئلہ ثابت کرنے کی  کوشش کی اور اس کے اجماعی ہونے کا انکار کیا ہے اوران کے بعد ان کےروحانی شاگرد وپیروکار علامہ ابن عبدالعزالحنفی  رحمہ اللہ شارح عقیدہ طحاویہ نے بھی اس کے بارے میں اختلاف سلف وخلف کا دعوی نقل کیا، لیکن علماء اکرام نے دونوں کے  دعووں کو پر زور انداز میں رد کیا ہے ، چنانچہ خود علامہ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کے شاگر در شید علامہ  عماد الدین ابن کثیر  رحمہ اللہ تعالیٰ نےتفسیر ابن کثیر میں  سورت ہود کی تفسیر میں ایسے تمام اقوال کو اقوال غریبہ کے عنوان سے ذکر کیا ہے۔ جبکہ  علامہ صنعانی رحمہ اللہ تعالی نے رفع الاستار   اور علامہ شوکانی  رحمہ اللہ تعالی نےكشف الاستار اور علامہ صدیق حسن خان صاحب رحمہ اللہ نے ھتك الاستار نامی رسالوں  میں علامہ ابن قیم رحم اللہ تعالی کے موقف کی مدلل تردید فرمائی ہے   ،اگرچہ علامہ شوکانی رحمہ اللہ تعالی نے ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی  کی طرف اس نظریہ کی نسبت کی تردید بھی فرمائی ہے، نیز     تنبيه المختارعلى عدم صحة القول بفناء النارعن الصحابة الأخيار (داخل شاملہ) ایک جدید عرب عالم   سلیمان بن ناصر علوان کی تصنیف ہے اس میں بھی ان کے موقف کی مدلل تردید موجو دہے ۔ نیزعلامہ تقی الدین السبکی رحمہ اللہ  نے بھی اس بارے میں ایک مستقل کتاب"الاعتبار ببقاء الجنۃ والنار" لکھی ہے ،(مقالات کوثری) نیز شرح العقيدة الطحاویہ کے تعلیق و تخریج احادیث کرنے والے مشہور عالم علامہ  ناصر الدین البانی  رحمہ  اللہ تعالی نےرفع الاستار کے مقدمہ میں بھی اس مسئلہ میں اختلاب سلف وخلف کے نظریہ کی پر زور تردید فرمائی ہے۔

دوسرے سؤال کا جواب:

۱۔نظریہ فناء جہنم   کے  تناظرمیں علامہ ابن قیم رحمہ  تعالی اور ان کے ہم خیال  حضرات کا شرعی حکم

پہلی بات تو یہ جان لیناضروری ہے کہ کسی قول کی بناء پر کسی پر  تکفیر یا تضلیل کا حکم لگانے سے پہلے اس قول کا اس سےاولا  یقینی ثبوت اور ثانیا عدم رجوع  دونوں ثابت ہونا ضروری ہے، جبکہ اس مسئلہ میں علامہ  ابن  قیم رحمہ اللہ تعالی کی کتابوںمیں دونوں قسم کی عبارات موجود ہیں،بعض کتب مثلا زاد المعاد اور   الوابل الصیب اور قصیدہ نونیہ میں  عدم فنا  ءجہنم اورحادی الارواح اور شفاء العلیل    میں فناء جہنم   سے متعلق  عبارات موجود ہیں ،لیکن اس بارے میں ان کا آخری  قول کیا ہے؟ اس بارے میں یقینی بات معلوم نہیں، اگرچہ مشہور  فناء جہنم کاقول ہے،لیکن کوئی   یقینی حکم لگانےکےلیےمحض شہرت کافی نہیں،جبکہ بعض اہل علم نے اس نظریہ  میں علامہ  ابن قیم رحمہ اللہ  کے عدم فنا کے قول  کومؤخر اور ناسخ بھی    مانا ہے اور اس کوثا بت بھی کیا ہے۔ ملاحظہ ہو مقدمۃ رفع الاستار للالبانی،وکشف الاستار لابطال ادعاء فناء النار لعلی الحربی

دوسری بات یہ ہے کہ اگر قول فناء کی نسبت صحیح اور باقی مان بھی لی جائے تو بھی اگرچہ  جمہور کےراجح قول کے مطابق یہ مسئلہ ضروریات دین میں سے ہے ،(امدالاحکام:ج۱،ص ۱۳۵،حقانیہ:ج۱،ص۲۳۳ ، ۲۴۹)لیکن  اس مسئلہ میں چونکہ  فی الجملہ کچھ اختلاف  بھی ہے، جو نفی تکفیر کےلیے کافی ہے،چنانچہ محققین نے جہمیہ کی تکفیر نہیں کی۔

 تیسرے  خودعلامہ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نے بھی جمہور کے برخلاف اس  بارے میں  بعض آثار صحابہ رضی اللہ عنہم  اوربعض آیات کی خلاف ظاہر تاویل کا سہارا بھی لیاہے اور قطعیات غیر یدیہیہ میں   تاویل اصولا تکفیر سے مانع ہے۔(باب البغاۃ ازدر مع رد)

حاشية رد المحتار - (ج 4 / ص 407)

وأما ما لم يبلغ حد الضرورة كاستحقاق بنت الابن السدس مع البنت بإجماع المسلمين، فظاهر كلام الحنفية الاكفار بجحده، فإنهم لم يشرطوا سوى القطع في الثبوت، ويجب حمله على ما إذا علم المنكر ثبوته قطعا، لان مناط التكفير وهو التكذيب أو الاستخفاف عند ذلك يكون، أما إذا لم يعلم فلا، إلا أن يذكر له أهل العلم ذلك فيلج اه.

مطلب في منكر الاجماع    :وهذا موافق لما قدمناه عنه من أنه يكفر بإنكار ما أجمع عليه بعد العلم به، ومثله ما في نور العين عن شرح العمدة أطلق بعضهم أن مخالف الاجماع يكفر، والحق أن المسائل الاجماعية تارة يصحبها التواتر عن صاحب الشرع كوجوب الخمس وقد لا يصحبها، فالاول يكفر جاحده لمخالفته التواتر لا لمخالفته الاجماع اه.

ثم نقل في نور العين عن رسالة الفاضل الشهير حسام جلبي من عظماء علماء السلطان سليم بن بايزيد خان ما نصه: إذا لم تكن الآية أو الخبر المتواتر قطعي الدلالة أو لم يكن الخبر متواترا، أو كان قطعيا لكن فيه شبهة، أو لم يكن الاجماع إجماع الجميع أو كان، ولم يكن إجماع الصحابة أو كان، ولم يكن إجماع جميع الصحابة، أو كان إجماع جميع الصحابة، ولم يكن قطعيا بأن لم يثبت بطريق التواتر، أو كان قطعيا لكن كان إجماعا سكوتيا، ففي كل من هذه الصور لا يكون الجحود كفرا، يظهر ذلك لمن نظر في كتب الاصول، فاحفظ هذا الاصل فإنه ينفعك في استخراج فروعه حتى تعرف منه صحة ما قيل، إنه يلزم الكفر في موضع كذا، ولا يلز في موضع آخر اه.

رد المحتار - (ج 16 / ص 373)

وخوارج وهم قوم لهم منعة خرجوا عليه بتأويل يرون أنه على باطل كفر أو معصية توجب قتاله بتأويلهم ، ويستحلون دماءنا وأموالنا ويسبون نساءنا ، ويكفرون أصحاب نبينا صلى الله عليه وسلم ، وحكمهم حكم البغاة بإجماع الفقهاء كما حققه في الفتح  وإنما لم نكفرهم لكونه عن تأويل وإن كان باطلا ، بخلاف المستحل بلا تأويل كما مر في باب الإمامة .

( قوله : كما حققه في الفتح ) حيث قال : وحكم الخوارج عند جمهور الفقهاء والمحدثين حكم البغاة .

وذهب بعض المحدثين إلى كفرهم .

قال ابن المنذر : ولا أعلم أحدا وافق أهل الحديث على تكفيرهم ، وهذا يقتضي نقل إجماع الفقهاء .

مطلب في عدم تكفير الخوارج وأهل البدع وقد ذكر في المحيط أن بعض الفقهاء لا يكفر أحدا من أهل البدع .

وبعضهم يكفر من خالف منهم ببدعته دليلا قطعيا ونسبه إلى أكثر أهل السنة والنقل الأول أثبت نعم يقع في كلام أهل مذهب تكفير كثير ، لكن ليس من كلام الفقهاء الذين هم المجتهدون بل من غيرهم .

مطلب لا عبرة بغير الفقهاء يعني المجتهدين ولا عبرة بغير الفقهاء ، والمنقول عن المجتهدين ما ذكرنا وابن المنذر أعرف بنقل مذاهب المجتهدين ا هـ لكن صرح في كتابه المسايرة بالاتفاق على تكفير المخالف فيما كان من أصول الدين وضرورياته : كالقول بقدم العالم ، ونفي حشر الأجساد ، ونفي العلم بالجزئيات ، وأن الخلاف في غيره كنفي مبادئ الصفات ، ونفي عموم الإرادة ، والقول بخلق القرآن إلخ .

وكذا قال في شرح منية المصلي : إن ساب الشيخين ومنكر خلافتهما ممن بناه على شبهة له لا يكفر ، بخلاف من ادعى أن عليا إله وأن جبريل غلط ؛ لأن ذلك ليس عن شبهة واستفراغ وسع في الاجتهاد بل محض هوى ا هـ وتمامه فيه .

قلت : وكذا يكفر قاذف عائشة ومنكر صحبة أبيها ؛ لأن ذلك تكذيب صريح القرآن كما مر في الباب السابق ( قوله : بخلاف المستحل بلا تأويل ) أي من يستحل دماء المسلمين وأموالهم ونحو ذلك مما كان قطعي التحريم ولم يبنه على دليل كما بناه الخوارج كما مر ؛ لأنه إذا بناه على تأويل دليل من كتاب أو سنة كان في زعمه إتباع الشرع لا معارضته ومنابذته ، بخلاف غيره

چوتھی بات یہ ہے کہ علامہ  ابن قیم رحمہ اللہ تعالی اگرچہ مجتہد نہیں تھے ،لیکن ایک متبحر عا لم ضرور تھے اور متبحر عالم   کےلیے دلائل میں غور وفکر کے ذریعہ  کسی قول کو اختیار کرنے کی شرعا واصولا گنجائش  ہوتی ہے۔(کما فی عقد الجيد في أحكام الاجتهاد والتقليد للدهلوي فصل في المتبحر في المذهب وهو الحافظ لكتب مذهبه) البتہ   متبحر عالم اگر کسی مسئلہ میں خلاف اجماع  قول اختیار کرلے تو اس سے نہ اجماع تو متاثر ہوتا ہے اور نہ ہی وہ قول شذوذسے نکلتا ہے،( چنانچہ کئی ائمہ سے مخالف اجماع بعض شاذاقوال منقول ہیں اور اس کے متعدد  فقہی نظائربھی موجود ہیں۔مثلا علامہ ابن حزم ظاہری سے بیسیوں شاذاقوال کو اختیار کرنا یا اجماع کے مقابلے میں  ازخودکوئی  قول کرنا منقول ہے۔کما  لایخفی علی من نظر فی المحلی لابن حزم  ،یہی حال داوود ظاہری رحمہما اللہ تعالی کا بھی ہے۔اس کے باوجود ابن حزم  وغیرہ  رحمہ اللہ تعالی سے گمراہی اور تکفیر کی  نفی کی تصریحات کبار ائمہ سے منقول ہیں۔)لہذا خود وہ متبحرعالم اس قول کی بناء پر گمراہ نہیں قرار پائے گا، لیکن دوسروں (عوام اورغیر متبحر علماء)کے لیے اس قول میں اس کی پیروی جائز نہ ہوگی ، ورنہ وہ گمراہ قرار پائیں گے۔(ماخوذاز فتاوی عبدالحی:ج۱ص:۱۰۸ او۱۱۰)

سير أعلام النبلاء للذهبي - (ج 18 / ص 201)

قلت: ومن تواليفه: كتاب " تبديل اليهود والنصارى للتوراة والانجيل " (8)، وقد أخذ المنطق - أبعده الله من علم - عن: محمد بن الحسن المذحجي، وأمعن فيه، فزلزله في أشياء، ولي أناميل إلى أبي محمد لمحبته في الحديث الصحيح، ومعرفته به، وإن كنت لا أوافقه في كثير مما يقوله في الرجال والعلل، والمسائل البشعة في الاصول والفروع، وأقطع بخطئه في غير ما مسألة، ولكن لا أكفره، ولا أضلله، وأرجو له العفو والمسامحة وللمسلمين.

حاشية رد المحتار - (ج 2 / ص 452)

قال في البحر: لان العامي يجب عليه تقليد العالم إذا كان يعتمد على فتواه، ثم قال: وقد علم من هذا أن مذهب العامي فتوى مفتية من غير تقييد بمذهب.

ولهذا قال في الفتح: الحكم في حق العامي فتوى مفتية.

وفي النهاية: ويشترط أن يكون المفتي ممن يؤخذ منه الفقه ويعتمد على فتواه في البلدة، وحينئذ تصير فتواه شبهة ولا معتبر بغيره اه.وبه يظهر أن يعتمد مبني للمجهول فلا يكفي اعتماد المستفتي وحده، فافهم.

  یہی وجہ ہے کہ  منصف مزاج علماء امت نے اس قسم کے بعض مسائل میں اختلاف کے باوجود  علامہ   ابن قیم رحمہ تعالی کی تضلیل یا تکفیر نہیں فرمائی ،بلکہ اس قسم کے مسائل میں انکی ذاتی آراء کو ان کی اجتہادی غلطی پر محمول کرتے ہوئے انہیں اہلسنت والجماعت کے اہل علم اور اکابر میں شمار کیا ہے، اور ہماےمتعدد اکابر علماء دیوبند بھی اپنی  علمی تحریرات میں ان کی کتب  اور علمی نکات  ،تعبیرات و تحقیقات   پر بھروسہ فرماتے چلے آرہے ہیں۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (ج 13 / ص 87)

أقول صانهما الله عن هذه السمة الشنيعة والنسبة الفظيعة ومن طالع شرح منازل السائرين لنديم الباري الشيخ عبد الله الأنصاري الحنبلي قدس الله تعالى سره الجلي وهو شيخ الإسلام عند الصوفية حال الإطلاق بالاتفاق بين له أنهما كانا من أهل السنة والجماعة بل ومن أولياء هذه الأمة ومما ذكر في الشرح المذكور ما نصه على وفق المسطور هو قوله على بعض عبارة المنازل وهذا الكلام من شيخ الإسلام يبين مرتبته من السنة ومقداره في العلم وأنه بريء مما رماه أعداؤه الجهمية من التشبيه والتمثيل على عاداتهم في رمي أهل الحديث والسنة بذلك كرمي الرافضة لهم بأنهم نواصب والناصبة بأنهم روافض والمعتزلة بأنهم نوائب حشوية وذلك ميراث من أعداء رسول الله في رميه ورمي أصحابه بأنهم صباة قد ابتدعوا دينا محدثا وهذاميراث لأهل الحديث والسنة من نبيهم بتلقيب أهل الباطل لهم بالألقاب المذمومة

۲۔فناءجہنم کے قائلین کے دلائل کا مختصر تنقیدی جائزہ:

 قرآن مجید سے استدلال: قائلین فنار جہنم قرآن مجید کی تقریبا تین آیات سے استدلال کرتے ہیں جن میں سب   سےپہلے سورہ انعام کی آیت میں قَالَ النَّارُ مَثْوَاكُمْ خَالِدِينَ فِيهَا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ [الأنعام/128] ، جبکہ دوسری آیت سورة ہود کی مشہور آیت خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ [هود/107] ان دو نوں  جگہوں میں استثناء سے، جبکہ تیسری آیت سورۃ نباء میں لَابِثِينَ فِيهَا أَحْقَابًا [النبأ/23] میں لفظ احقاب کےمفہوم  سے فنار نار پراستدلال کرتے ہیں ۔

اجمالی جواب : پہلی دو جگہ سے استدلال کے جواب میں عرض یہ ہے کہ ان   دونوں مقامات میں الا ماشاء الله یا الا ماشاء ربک کا استثناءعموم اور اطلاق کے باعث مبہم اور محتمل ہے اور محتمل قابل استدلال نہیں ہوتا۔ (روح المعانی) بلکہ یہ دونوں مقامات متشاببہات میں سے ہیں۔(رفع الاستار) لہذا دیگر محکم  اور صریح قرآنی آیات کی روشنی میں ان کی مراد متعین کرنا ضروری ہے، لہذا ان دونوں آیات کی تاویل میں  محکمات کی روشنی میں  مختلف اقوال ہیں اور ترجیح اور تضعیف میں اختلاف بھی شدید ہے ۔ تفصیل کیلئے تفسیر کبیر ،روح المعانی ،القرطبی ملاحظہ کی جاسکتی ہے جس کاخلاصہ آگے آرہا ہے ،نیز پہلی آیت کی تفصیلی  وضاحت کیلئے شاملہ میں شامل کتاب دفع الاضطراب عن بعض آيات الأنعام بھی بہتر کتاب ہے۔ نیز رفع الاستار میں بھی بہترین تفصیلی  موجود ہے ۔

تیسری آیت لَابِثِينَ فِيهَا أَحْقَابًا [النبأ/23] بھی دیگر صریح قطعی نصوص کی روشنی میں واجب التاویل قرار دیا گیا ہے کما ذهب   اليہ عامۃالمفسرین جبکہ رفع الاستار میں علامہ صنعانی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ سورت نبا ءکی اس آیت کے بعد کی آیات فناء عذاب جہنم کے نظریہ کی تردید کرتی ہیں ، اس لیے کہ آخر میں فَذُوقُوا فَلَنْ نَزِيدَكُمْ إِلَّا عَذَابًا [النبأ/30] واضح دلیل ہےکہ آخر کار لبث احقاب  کے بعد عذاب منقطع نہیں ہوگا ،بلکہ اس میں مزید در مزید اضافہ ہی ہوتاچلاجائے گا ۔

تفصیلی جواب:

آیت سورة انعام سے استدلال کی حقیقت:

 آیت سورة انعام قَالَ النَّارُ مَثْوَاكُمْ خَالِدِينَ فِيهَا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ کے استثناء کے بارے میں    علامہ ابن قیم  سمیت   جمہورحضرات مفسرین رحمہم اللہ تعالی نے چند وجوہ بیان فرمائی ہیں اور ان   وجوہ وا قوال کے پیچھے نقلی یا عقلی دلائل بھی ہیں اور ان پر اعتراض کے جوابات بھی،نیز ترجیح میں مفسرین میں اختلاف بھی ۔

استثناءکے وجوہ  سے قبل آیت کے نفس موردومحمل کے بارے میں تین احتمال ہیں۔

(۱)صرف کفار کے حق میں ہو۔ (۲) صرف عصاة المؤمنین کے حق میں ہو۔ (۳) دونوں کے حق میں ہو۔ (حادی الارواح الی بلاد الافراح لابن القیم رحمہ اللہ تعالی)

حادي الأرواح إلى بلاد الأفراح لابن قيم الجوزي - (ج 1 / ص 251)

 والمقصود أن قوله إلا ما شاء الله عائد إلى هؤلاء المذكورين مختصا بهم أو شاملا لهم و لعصاة الموحدين وأما اختصاصه بعصاة المسلمين دون هؤلاء فلا وجه له

 علامہ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نے  اگرچہ اس آیت کا مورد صرف کفار کو بھی مراد لینا  درست فرمایا ہے،لیکن صحیح   ومعتبر  بات یہ ہے کہ  صحیح وراجح  احتمال  آخری ہے ، اس لئے کہ آیت کا سوق تخویف اخروی برائے کفار اور مشرکین ہے، لیکن عموم الفاظ کے اعتبارسے عصاۃ المومنین کو بھی شامل ہے، لہذا آیت تخویف کفا رمیں عبارة النص ہے جبکہ عصاۃ المؤمنین کے تخویف  کوبطور دلالة النص یا مقایسۃ   شامل ہے ۔وقد تقرر ان العبرۃ لعموم الالفاظ  لالخصوص السبب۔

اب إلا ما شاء اللہ کے استثناءمیں چند ا حتال مع  وجوہ ترجیح وضعیف   ذکر کئے جاتےہیں۔

۱۔مستثنی میں بیان مدت مکث في البرزخ والموقف( زجاج)   اوفی الدنيامراد ہے،( قرطبی وابن کثیر)    لیکن یہ  مفہوم استثناء  سیاق کلام کے موافق نہیں ، اس لئے کہ یہ کلام اہل جہنم سے دخول کے بعد کیا جائے گا،  لہذا استثناء میں مستثنی کا زمان بھی مستثنی منہ کی طرح د خول کے بعد میں ہو نا چا ہیے، جبکہ مذکورہ توجیہ کے مطابق مستثنی منہ کا زمانہ دخول کے بعد کا ہےاور مستثنی کا زمانہ دخول سے قبل  کا ہے، لہذا  یہ تو جیہ درست نہیں۔(روح المعانی بحوالہ بحر محیط، حادی الارواح)

۲۔استثناء انواع عذاب کا باعتبار  وقت کے ہے کہ آگ کا عذاب تو ہمیشہ رہے گا، البتہ اس کے علاوہ عذاب بھی مثلا زمہر یر وغیرہ کے وقتا فوقتا آتے رہیں گے۔ قاضی بیضاوی رحمہ اللہ تعالی نے اسی کو ترجیح  دی ہے۔

لیکن یہ تو جیہ اس لیے ضعیف ہے کہ یہ مفہوم استثناء کے مفہوم کے منافی ہے، اس لئے کہ مستشی مستشی منہ کے مخالف ہوتا ہے،جبکہ یہاں دونوں ازقبیل عذاب ہیں،لہذاعذاب سے عذاب کا استثناء مفہوم استثناء کے موافق نہیں۔(حادی)دوسری وجہ ضعف یہ ہے کہ اس میں ما کو وقتیہ لینا پڑتا ہے جو خلاف ظاہر ہے۔(روح)

۳۔استثناء میں الا بمعنی سوی کے ہے(مظہری وغیرہ) اور مستثنیٰ سے مراد اضافی  عذاب یازمانہ مراد ہے۔(وجہ اززجاج ،روح) ای سوی ماشاء اللہ ان یزید هم من زمن العذاب او انواعہ، لیکن یہ توجیہ بھی  اول تو اس وجہ سے ضعیف ہےکہ  اس مفہوم کی مستثنی اور مستثنی منہ دونوں سے منافرت پوشیدہ نہیں، نیزثانیا اس توجیہ میں الا کے مابعدکی ماقبل سے مخالفت بھی ظاہر نہیں۔ثالثا   زیادۃ انواع عذاب مثلازمہریر مرادلینےکی صورت میں  مستثنی منہ میں مثواکم النار میں نار کو دار عذاب کے بجائے لغوی معنی میں لینا لازم آتا ہے جو خلاف ظاہر نص ہے۔ اور بعض نے یہاں زمانہ یا انواع عذاب میں زیادتی  کے بجائےدارعذاب سےخروج مرادلیاہے،لیکن وہ بھی خلاف نصوص قطعیہ  ہے۔قال اللہ تعالی وماھم بخارجین من الناروغیرہ(روح)

۴۔یہ استثناء معلق بمشیۃ اللہ  رفع العذاب ہے اور تعلیق  للتبرک یا ازقبیل تعلیق بالمحال ہے یا  یعنی  وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں،  مگر  جب تک  اللہ چاہیں ،اگر اللہ کسی  متعین مدت تک  ان کا رہناچاہتے۔لیکن اللہ کا رفع عذاب کی عدم مشیت  نصوص قطعیہ سے ثاقبت ہے۔علامہ آلوسی رحمہ اللہ تعالی نے اسی توجیہ کو ترجیح دی ہے۔ اوربقول علامہ آلوسی رحمہاللہ تعالی  بعض نے  اس کو یوں بیان کیا ہے کہ یہ استثناء    مبالغہ فی الخلود ہے۔کہ کفار کا جہنم سے نکلنے اللہ کی مشیت کے بغیر ممکن نہیں۔اور اللہ کی مشیت کفار کے حق میں نکلنے کی نہیں،بلکہ نہ نکلنے کی مشیت نصوص قطعیہ سے ثابت ہے۔

۵۔استثناءباعتبار انقطاع عذاب کے ہے۔ اور اس میں بھی تین احتمال ہیں -1- فقط کفار کیلئے ۲۔فقط عصاة المؤ   منین کیلئے ۳ دونوں  کیلئے۔ پہلا اور تیسراقول باطل ہے اس لیے کہ کفار کے جہنم  سے  نہ نکلنے اور عذاب ختم نہ ہونا نص صریح سے ثا بت ہے ۔لہذادوسری وجہ متعین ہے،اس لیے کہ نصوص صریحہ قطعیہ سے   عصاۃ المؤمنین کا جہنم سے نکلنا ثابت ہے۔ولا خلاف  لابن القیم  رحمہ اللہ فیہ، البتہ ابن عباس رضی اللہ عنہما  سے مروی ایک روایت کے مطابق   یہاں استثناء ان کفار کوبھی شامل ہے جن کے بارے میں علم الہی میں  مسلمان ہونا طے ہوچکا تھا اور اسلام کے بعد وہ کسی وجہ سے جہنم گئے تو کفار میں سےایسے لوگ    اس استثناء کا مصداق ہیں۔(والیہ یمیل القرطبی والمظہری) اگرچہ علامہ آلوسی رحمہ اللہ تعالی نے اس توجیہ کو بھی  دووجہ  سےضعیف قرار دیا ہے۔

لہذاعلامہ  ابن تیمیہ  وابن قیم رحمہما اللہ تعالی کا یہ کہنا کہ( یہ استثناء باعتبار انقطاع عذاب کے یا تو صرف کفار کے اعتبار سے ہے یا دونوں کے اعتبار سے، یعنی  کفار کے حق میں انقطاع عذاب بصورت فناء نار ہے اور عصاۃالمؤمنین کے حق میں بصورت خروج  از نار ہے۔(رفع الاستار))یہ قول   مخترع وغیر منقول بلکہ خلاف نصوص قطعیہ ہے ،لہذااس آیت سے انقطاع عذاب و فناء جہنم پر استدلال  درست نہیں، بالفرض  اگر یہ مفہوم درست بھی ہوتا تو بھی  آیت متشابہ اور محتمل ہونے کی وجہ سے   ،بالخصوص اعتقادی مسئلہ میں بالکل لائق استدلال نہیں، بلکہ دیگر محکم آیات کی روشنی میں واجب التاویل ہے جیساکہ  جمہور علماء امت  نے اس میں مختلف تاویلات  فرمائی ہیں۔

یہ تفصیل آیت   سورت انعام کے استثناء سے متعلق تھی ، اب آگے  سورت ھود کے استثناء سے متعلق لکھا جاتا ہے۔

 آیت سورت ھود کے استثناءسے استدلال کی حقیقت:

فَأَمَّا الَّذِينَ شَقُوا فَفِي النَّارِ لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ (106) خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ  [هود/106، 107]

 استثناء پر بحث کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ  اس آیت میں  خلود فی النار والجنۃ کی جو توقیت مذکور ہے،وہ اپنے ظاہر پرحمل نہیں ،اس لیے کہ امت کے اجماع اور دلائل قطعیہ سے دونوں کاخلود اور انکے عذاب کی تابید ثابت ہے ،(فتح القدیر شوکانی رح)لہذا اس بارے میں اہل علم کی دو آراء ہیں ۱۔یہ تابید عرب محاورے کے مطابق تابید بیان کرنے کے لیے ہے۔(۲) سماء وارض سے آخرت کے ارض و سماء مراد ہیں جو ہمیشہ رہیں گے۔جیساکہ قرآن سے ان  کا وجود بھی ثابت ہے۔

 اس آیت کے استثناء میں بھی  چند(تقریبا گیارہ ) احتمالی وجوہ وتفسیری اقوال منقول ہیں،(فتح القدیر وقرطبی)  جن کاحاصل یہ ہے کہ الا  استثناء کےلیے ہےیا نہیں؟ اگر ہے تو اس میں درج ذیل چند احتمالات  ہیں:

۱۔ استثنا ء کا تعلق  نفس عذاب نار سے ہے۔یعنی مستثنی سے مراد  دیگرانواع عذاب مثلا زمہریر کا عذاب ہے۔

۲۔ استثنا ء کا تعلق  دخول نار سے ہے، اور ما بمعنی من ہوگایعنی کچھ لوگوں کو باوجود استحقاق کے اللہ تعالی جہنم میں داخل ہونے سے بچادینگے۔

 ۳۔ استثناء  کا تعلق  حالت  زفیر وشہیق سے ہے۔یعنی خلود فی النار کی یہ کیفیت دائمی نہیں،بلکہ جب  جب اللہ چاہے گا۔

 ۴۔ استثنا ء کا تعلق مدت دوام  سماوات و ارض  سے ہے،  جبکہ ان سے دنیا  کےسماو ء وارض مراد ہو یا بالفاظ دیگر استثناء باعتبار زیادت زمان عذاب کے ہے۔یعنی ان کی مدت  قیام سے زیادہ جس قدردوام  اللہ چاہے گا۔

۴۔ استثناء کا تعلق  دنیا میں رہنےکی مدت سے ہے۔

۵۔ یااستثناء کا تعلق مدت مکث فی النار یابرزخ ومحشرکے زمانہ سے ہے۔

۶۔ استثناء کا تعلق  خالدین کی ضمیر سے ہے۔ اور بمعنی من ہے اور مراد عصاۃ المؤمنین ہیں۔

۷۔ استثناء ز مان خلود   فی النارسے ہے کہ اس مدت کے بعد اہل جہنم مر کر دوبارہ زندہ ہونگے۔

 اور اگر الا استثناء کےلیے نہیں تو اس میں چند احتمال  منقول ہیں:۱۔الابمعنی واو، ۲۔الا بمعنی لکن۳۔الا بمعنی کاف تشبیہ کےہے۔۴۔الا تفویض وتبرک کےلیے ہے۔۵۔ الا شرطیہ  ہے ،لیکن یہ تعلیق بالمحال کی قبیل سے ہے۔ آخری دو نوں وجہیں ہم معنی ہیں۔(روح)لہذا تعداداقوال ووجوہ    گیارہ بنتی ہے اور ہرقول کی پشت پر   عقلی یا نقلی دلائل  اور ان پر اعتراض وجواب کاسلسلہ بھی موجود ہے، اور ترجیح میں اختلاف بھی ، البتہ علامہ آلوسی رحمہ اللہ تعالی نے یہاں بھی آخری قول کو ترجیح دی  ہے۔

لہذانصوص قطعیہ واجماع امت  کے مخالفت   کے باعث یہ آیت بھی واجب التاویل ہونے کی وجہ سے متشابہ اور محتمل ہے،لہذا اس آیت سے بھی فناء نارپر استدل درست نہیں۔(روح المعانی)

آیت لابثین فیھا احقابا سے استدلال کی حقیقت:

اس آیت کامفہوم بھی دیگر صریح  وقطعی نصوص اور اجماع کے معارض ہونے کی وجہ سے واجب التاویل ہے(مظہری)

۱۔ یہ توقیت منسوخ ہے اور ناسخ اگلی آیت  فلن نزیدکم الا عذابا ہے۔لیکن یہ قول بھی ضعیف ہے اس لیے کہ  خبر محتمل نسخ  نہیں ہوتی۔

۲۔احقاباسے احقاب متتابعہ لا متناہیہ  مراد ہے۔(حسن بصری)یہ قول ضعیف ہے۔ بوجہ لزوم الغاء قید احقاب۔

۳۔احقابا سے  دھور متتابعہ مراد ہیں، لیکن اس سے   انقطاع عذاب پرصریح دلالت نہیں ہوتی، البتہ   آیت کےمفہوم مخالف  سےکسی درجہ  میں  یہ انقطاع وانتہاء عذاب  ثابت ہوسکتا ہے ،لیکن مفہوم مخالف جب منطوق کے خلاف ہو تو اس کااعتبار اصولا نہیں ہوتا۔( مظہری بحوالہ بیضاوی  )

۴۔احقابا  کا لفظ حقب کی جمع ہے اور یہ حقب الرجل بمعنی اخطا الرزق سے مشتق ہے اور اس کا معنی ہے ممنوعین عن الرزق کلہ  ، لیکن  یہ  قول بھی حقب کے   منقول وماثور مفہوم کے خلاف ہونے کے باعث درست نہیں۔

 حاصل یہ کہ اس آیت سے بھی استدلال درست نہیں۔ ایک تو  احقاب کے مفہوم میں اختلاف    ہے ،دوسرےاس  کا مفہوم مخالف  اگرچہ انقطاع عذاب پر دال ہے،لیکن وہ منطوق(صریح نصوص) کے مزاحم بننے کی  صلاحیت نہیں رکھتا۔(ازمظہری)

قائلین فناء کااحادیث و آثار سے استدلال :

قرآن مجید کے علاوہ اس بارے میں بعض مرفوع و موقوف روایات سے بھی استدلال کیا جاتا ہے۔ جن میں مرفوع روایات تو یقینا ناقابل اعتبار اونا قابل استدلال ہیں اور بفرض ثبوت واجب التاویل بھی ہیں کمامر(روح المعانی)، اسی طرح بعض صحابہ کر ام اورتابعین سے مروی آثار بھی اول تو وہ سندا کمزور یاثابت نہیں ،ثانیا وہ دعوی فناء نارمیں صریح نہیں ،بلکہ ان میں صرف یہ بات ذکر ہے کہ جہنم میں ایک وقت ایسا آئے گا کہ کوئی بھی باقی نہیں رہے گا۔ لہذا اس بات سے فناء جہنم پر استدلال  کسی بھی طرح درست نہیں بنتا۔ ثالثا  وہ روایات مؤول ہیں کہ ان سے مراد موحدین ہیں کہ ایک وقت تک عذاب بھگتنے کے بعد ان میں سے کوئی بھی جہنم میں باقی نہیں رہے گا اور یہ تاویل  اس لئے بھی ضروری ہے کہ ان بعض صحابہ جن سے اس قسم کے آثار منقول ہیں ان سے خود صحاح  ستہ  میں  ذبح  موت کی روایت منقول ہے جیسا کہ ابوھریرہ اور ابو سعید خدری رضی الله عنهما تولہذا ایسے حضرات سے منسوب روایات سے  فنار جہنم پر استدلال تاویل القول بما لا یرضی بہ القائل کی قبیل سے ہے۔ اس کے علاوہ تفسیر مظہری میں امام بغوی رحمہ  اللہ تعالی کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اثر کے بارے میں بھی یہی جواب منقول ہے کہ اگر بالفرض یہ روایت ثابت بھی ہو تو اس کا تعلق موحدین سے ہے نہ کہ کفار سے ۔ اور یہی حال حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی روایات  کا ہے ،بلکہ وہ تو سندا منقطع بھی ہے کما صرح به  اللبانی  رحمہ اللہ تعالی فی سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ نیزان روایات و آثار کی مذکوره تاویل خود ان کے رواۃ سے بھی منقول ہے جنہیں علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے بلا کسی  دلیل کے رد فرمایا ہے ۔ ان آثارور و ایات کے تفصیلی رد اور جوابات کیلئے  علامہ صنعانی  رحمہ اللہ کی رفع الاستار مع تحقيق وتعليق الباني  رحمہ اللہ نیزتنبیہ المختار نامی کتابیں نہایت  عمدہ اور محققانہ کتا بیں ہیں۔ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔

 اختلاف مذاہب اور مسئلہ ابدیت جہنم:

جیسا کہ شروع میں لکھا جا چکا کہ یہ ایک مسلمہ اور متفقہ اور اجماعی قطعی عقیدہ ہے  اوراہل سنت میں سے امام ابن قیم  رحمہ  اللہ تعالی سے قبل جہمیہ کے علاوہ اس کا کوئی قائل نہیں گزرا ،لہذا علامہ ابن قيم رحمہ الله تعالی کا اس بارے میں اختلاف روایات  (مبھمہ ومحتملہ) کی بنیاد پر اختلاف مذاہب  کا نتیجہ اخذ کرنا یا بلکہ فناء جہنم  پراجماع کے دعوی کی گنجائش  کا اشارہ  دینادرست نہیں ،بلکہ صحیح  یہ ہے کہ فناء جہنم کے بارےمیں  جملہ اقوال شاذ ، باطل اور غیر معتبر ہیں ۔ جیسا کہ ر فع ا الاستار وغیرہ کتب میں اس کی تصریح بھی ہے۔

 اس لئے کہ جب ایک قول کا اجماعی ہونا ثابت ہو جائے تو اس کے مقابلہ میں جملہ اقوال شاذ اور غیر معتبر بلکہ باطل ہوتے ہیں،چہ جائے کہ وہ تمام اقوال محتمل بھی ہوں۔  لہذا علامہ ابن عبدالعز حنفی  اور ابن قیم رحمہما اللہ تعالی  کا مذکورہ آثار سے کشیدکردہ و اخذ کردہ موقف کو بھی بعض سلف کی رائے قرار دینا اور اس کو بھی معتبر کہنا ایک  اجماعی عقیدہ اور مسئلہ کے مختلف فیہ  ہونے کا دعوی ہے جو خلاف حقیقت اورتحقیق ہے ۔

عقیدہ ابدیت جہنم اور عقل  وقیاس :

قائلین فناءجہنم اس بارے میں عقلی لحاظ سےدو طرح کا استدلال پیش کرتے ہیں۔

۱۔ ابدیت جہنم کا نظریہ فلسفہ تعذیب کے منافی ہے۔

۲۔ یہ نظریہ   قانون جزاو سزا یا بالفاظ دیگر قانون عدل وانصاف کے منافی ہے ۔

پہلے استدلال کا حاصل یہ ہے کہ تعذیب کی غرض وغایت انز جار ہے اور عذاب جہنم کے انزجار  کا باعث وموجب ہونا محتاج بیان و دلیل نہیں ، بلکہ متعدد نصوص میں ان کا اعتراف انز جار منقول و ثابت ہے، لہذاس کے بعد بھی عذاب کا نظریہ ایک فعل عبث یا  قبیح کے  ایک حکیم ذات سے صادر ہونے کا قائل ہونے کو مستلزم ہے۔

 جواب(۱): اعتراف انزجار جو نصوص میں مذکور ہے وہ حقیقی انز جار کااعتراف نہیں، بلکہ دفع الوقتی یا عارضی ہے اور عاقبۃ پھر عود الی الکفر ہے اور دلیل اس اعتراف کے حقیقی نہ ہونے کی اللہ تعالیٰ کا ارشاد و  لورد و العاد وا لما نھوا ہے ۔ ( امد ادالفتاوی)

(۲)یہ اعتراف انز جارا اگر چہ حقیقی ہے، لیکن بعد از وقت ہے اور معتبر نہیں، جیسا کہ کسی امتحان میں پاس وکامیاب ہونے

کےلیے مقررہ و متعین مدت کے بعد کامیابی کا اعتبارنہیں ہوتا اورمتعلقہ ڈگری جاری نہیں کی جاتی۔

(۳)یہ انزجاارااگر چہ حقیقی ہے،لیکن اس کے باوجود تعذیب میں دیگر مصالح وابستہ ہو سکتے ہیں۔ مثلا دوام عذاب میں  اللہ تعالی کی صفت عدل کے اظہار کا دوام یا اہل جنت کے روحانی تسکین کا ذریعہ ہونا وغیرہ۔ لہذا فعل عبث کا ا ارتکاب لازم نہیں آتا۔

(۴) انتفاء ادراک مصالح انتفاء  مصالح کو  مستلزم نہیں ،ممکن ہے، اور بھی مصالح ہوں، لیکن ہمیں معلوم نہ ہوں، کس قدر احکام ہیں کہ ان کے حقیقی مصالح معلوم نہیں، لیکن ان کے مصالح سے عدم علم کی بنیاد پر انکاربھی نہیں کیا جا سکتا ۔

دوسرے استدلال کا پہلا جواب یہ ہے کہ قانون جزاوسزا یا قانون عدل کا تقاضہ صرف اس قدر ہے کہ جرم وسزا میں مناسبت ہونی چاہیے،لیکن دونوں میں زمانا  مناسبت ومطابقت کامتقضی  وموجب نہیں۔ (اشرف الجواب )

دوسرے  استدلال کا دوسرا جواب یہ ہے کہ تابید عذاب کا فیصلہ  الزام نہیں ،بلکہ التزام ہے، یعنی جب اللہ تعالی نے کفر کی سزا ابدی قرار دی اوراس کا اعلان بھی کر دیا تو ایسی صورت میں  ابدی سزا الزام نہیں، بلکہ خود مرتکب کی طرف سے التزام سزائے  ابدی ہے ۔(حقانیہ:ج۱،ص۲۴۹)

تیسراا جواب: تا بید عذاب نفس کفر  کی سزانہیں، بلکہ عزم اصرار على الکفر کی سزا ہے ،اور عزم  اصرار علی الکفر امر لا متنا ہی ہے تو سزا بھی  لا متناہی ہی ہوگی اور دلیل اس عزم اصرار کی وہی آیت ولور دوا لعا دوا  لما نھواہے ۔

واضح رہے کہ ابدیت اگر چہ ایک تاویل کی بناء پر عزم اصرار علی الکفر کی سزا ہے،لیکن خود نصوص سے ثابت ہےکہ ایک تو کفار کا عذاب تزکیہ کےلیے نہیں،دوسرے ان کا  اعتراف  انزاجار   کا دفع الوقتی ہونا بھی نصوص سے ثابت ہے جیساکہ ولو ردو ا لعادو ا،تیسرے  جب دنیا ( دارالعمل)میں عزم اصرار علی الکفر پایا گیا تو اب اس کی سزا(ابدیت عذاب)  کاسبب متحقق ہوچکا اور آخرت دار الجزاء ہے وہاں جس طرح  شدت عذاب دیکھنے اور سہنے سے نفس کفر سے توبہ اسقاظ عذاب کے حق میں  مقبول ومعتبر نہیں جیساکہ نصوص قرآن سے ثابت ہے،  لہذا عزم اصرار سے رجوع بھی   ابدیت  کے انقطاع کے حق میں معتبر نہ ہوگا،ورنہ ما بہ الفرق کیا ہوگا؟ نیزبعض کفار کے حق میں اس  عزم اصرار کے باقی نہ رہنے کو معتبر مان لینے سے مطلقاابدیت عذاب کا قول کیوں کر ثابت ہوسکتا ہے؟چوتھی بات یہ ہے کہ   کفار جہنم میں مختوم  القلب  ہونے کی حالت میں داخل ہونگے  جیساکہ آیت بنی اسرائیل میں مصرح ہے وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى وُجُوهِهِمْ عُمْيًا وَبُكْمًا وَصُمًّا مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنَاهُمْ سَعِيرًا  [الإسراء/97] اور مختوم القلب سے  جس طرح   حقیقۃ  رجوع عن الکفر ممتنع  شرعاہے،اسی طرح عزم اصرار سے رجوع بھی شرعا ممتنع ہے، لہذا چاروں مقدمات یہ نتیجہ دیتے ہیں کہ بعض کفارکی طرف سے  عزم  اصرارباقی نہ رہنے کااحتمال غیر  ناشی   دلیل  ہونے کی وجہ سے غیر معتبرہے، اور بالفرض مان لیا جائے تو بھی اثبات مدعی میں مفید نہیں۔

چوتھا جواب : کفر اگرچہ بظاہرمبادیات   واصول کے اعتبار سے محدود ہے ،لیکن جزئیات  وفروع کے اعتبار سے لامحدود بھی

ہے، یعنی اللہ تعالٰی کی ذات وصفات  وکلمات لامتناہی ہے، لہذا ان کا انکار  لامتنا ہی کا سزا بھی لامتنا ہی ہی ہوگی ۔

واضح رہے کہ انسان اگرچہ اپنے علم کے مطابق مکلف ہے اور لامتناہی کلمات اور صفات الہیہ کا تفصیلی علم اگرچہ انسان حاصل نہیں کرسکتااور نہ ہی وہ شرعااس کا مکلف بنایا گیا ہے ،لیکن ان کا اجمالی  علم تو یقینا بلا شبہہ حاصل کرسکتا ہے،،لہذا جب  کلمات وصفات لامتناہیہ کے ایمان پر  ابدی اجرو ثواب غیر معقول نہیں  ہوسکتا تو انکار کی  ابدی سزا بھی خلاف عقل کیوں کر ہوگی۔

پانچواں جواب: کفر کی اشدیت لامحدود ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے : تَكَادُ السَّمَوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا [مريم/90] أَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمَنِ وَلَدًا  [مريم/91]

لہذا ایسے لا محدود اشد جرم کی سزا بھی لا محدود ہونی چاہیے، لیکن انسان کے حواس کا دائرہ محدود ہے جس کی وجہ سے اس میں لا محدود سزا کے ادراک  و احساس کی اہلیت نہیں، لہذا اس وجہ سے اس کی سزا ابدی کر دی گئی ہے۔
یہاں پر علامہ ابن قیم رحمہ اللہ وغیرہ حضرات کی طرف سے دیگر عقلی وجوہ بھی پیش کی گئی ہیں ، لیکن ان سب کا اصولی جواب یہی ہے کہ یہ سب معارضتہ النص بالعقل والقیاس ہے جو کہ نصا  واصولاباطل ہے۔کما مر فی التمھید اور بھی جوابات ہیں لیکن تطویل کے خوف سے ابھی سردست انہیں اعتراضات و انکے  جوابات پر اکتفا کیا کیا ہے ۔

۳۔استفتاء کے تیسرے سؤال  کا جواب:

جمہور کے موقف (دلائل عدم فناء جہنم )پر قائلین فنا ء کے اعتراضات کے جوابات :

اعتراض (۱)نصوص قرآنیہ میں تابید عذاب اہل جہنم کا ذکر ہے ، لہذا  اس سے تا بید جہنم پر استدلال درست نہیں  اور تابید عذاب کے نصوص   کا معنی    ما دامت النار با قیۃ  ہے۔

 جواب: یہ تاویل خلاف ظاہر اور بلا قرینہ بلکہ خلاف  دلائل ہونے کی وجہ سے معتبر نہیں۔لان الاحتمال غیرالناشئ  عن دلیل لا یضر،  باقی یہ نصوص اگرچہ اشارۃ النص کے طور پر تابید عذاب اہل جہنم پر دلال ہیں، لیکن اقتضاء النص کے طور پر خود تابید جہنم پر بھی دال  ہیں۔

اعتراض (۲)تابید جہنم کا عقیدہ آیت کل شئی ھالک  الاوجھہ کے خلاف ہے۔

 جواب (۱)یہ آیت عند الجمہور  مخصوص منہ البعض ہے اور کل آٹھ چیزیں اس عموم سے مستثنیٰ ہیں جن میں جنت جہنم بھی داخل ہیں۔(فتاوی حقانیہ:ج۲،ص۲۳۵ ومقدمہ  رفع الاستار بحوالہ قصیدہ نونیہ)

(۲) تابید جہنم کا نظریہ اس استثناء کے بغیر بھی۔ اس آیت کے مفہوم کے خلاف نہیں۔(تفصیل بواورالنوادرمیں ملاحظہ ہو۔)
۴۔استفتاءمیں ذکر کردہ آخری سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ تاویل  بھی در حقیقت ابن عربی طائی رحمہ  اللہ تعالی کے طرف منسوب قول پر مبنی ہے، جبکہ اہل سنت علماء نے اس کی بھی پر زور تردید فرمائی ہے۔ چنانچہ:

۱۔اول تو اس نظریہ کی ابن عربی رحمہ  اللہ تعالی کی طرف نسبت درست نہیں ، جیسا کہ امام شعرانی رحمہ  اللہ تعالی نے الیواقیت میں اس نسبت کی تردید فرمائی ہے اور خود ابن عربی رحمہ  اللہ تعالی کی دیگر کتب سے اس کے خلاف اور جمہور کے مو افق عقیدہ نقل فرمایا ہے اور اس باطل نظریہ کو ان کی کتب میں دس من البغاۃ قرار دیا ہے۔(ا حکام القرآن للتھانوی رحمہ  اللہ تعالی)

 ۲- فتاوی حقانیہ:(ج۱،ص۲۴۹) میں بھی لکھا ہے کہ یہ عقیدہ بھی آیت کلما نضجت جلود ھم کے خلاف اور باطل ہے۔
    ۳۔نجم الفتاوی (ج۱،ص۵۹۳) میں بھی ایسا ہی لکھا ہے۔

۴۔ابن ابی العز الحنفی شارح  عقیدہ طحاویہ رحمہ  اللہ تعالی نے جن اقوال کو باطل قرار دیا ہے ان میں یہ عقیدہ بھی شامل ہے ۔

۵۔خود ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نے بھی حادی الارواح ، شفاء العلیل  وغیرہ کتب میں اس کو باطل اقوال میں شمارکیا ہے۔

۶۔تفسیر مظہری میں بھی لکھا ہے کہ لكن هذا القول مردود بالاجماع والنصوص۔

 لہذا   یہ بات کہ جہنم بھی باقی رہے اور اہل جہنم بھی باقی رہیں،لیکن کسی زمانہ میں  ان کا عذاب منقطع ہو ، اس کی نفی پر  درج ذیل آیات قطعیت کے ساتھ دلالت کرتے ہیں۔

(۱) مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنَاهُمْ سَعِيرًا  [الإسراء/97] 

(2) إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآَيَاتِنَا سَوْفَ نُصْلِيهِمْ نَارًا كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْنَاهُمْ جُلُودًا غَيْرَهَا لِيَذُوقُوا الْعَذَابَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَزِيزًا حَكِيمًا  [النساء/56]

یہ  دونوں آیتیں   اس نفی  پر اشارۃ النص ہیں ،اس لیے کہ  جہنم کےماوی کفار ہونے پر  اور ان کے اصلاء جہنم پر تجدید وزیادت عذاب کی تفریع ہے،لہذا ان آیات کے مفہوم  کو عذاب کے کسی مفروضہ   دورانیہ پر حمل کرناخلاف ظاہر ہے جو محتاج دلیل   ہے۔ولادلیل ، والمحتمل لا یکون حجۃ ،جبکہ   آیات محکمات سے عذاب کا خلود ودوام وابدیت ہی  متبادر وظاہر  ہے،لہذا   بطوراقتضاء النص جہنم کاخلود ودوام وابدیت بھی ان نصوص سے ثابت ہوتی ہے،لہذا   ابدیت یاخلود عذاب  کو مخصوص مفروضہ دورانیہ پر حمل کرنا   نہ صرف یہ کہ بلا دلیل ہے ،بلکہ خلاف دلائل ہےاورآیت لابثین فیھا احقابا بوجہ  متشابہ ومحتمل ہونے کے دلیل نہیں بن  سکتی۔جیساکہ (اس آیت   سے استدلال کی حقیقت) عنوان   کے تحت تفصیل سے گزرچکا۔

حوالہ جات

۔۔۔۔۔۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

یکم ذی الحجۃ۱۴۴۶ ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب