87688 | طلاق کے احکام | خلع اور اس کے احکام |
سوال
میری شادی کو 21 سال ہو چکے ہیں۔ میرے شوہر نے شادی کے صرف ایک سال گھر کا خرچہ اٹھایا اس کے بعد 20 سال انہوں نے خرچہ نہیں اٹھایا ،جبکہ ان کی جاب بھی ہے۔ اس کے بعد 8 سال میری والدہ نے میرے گھر کا خرچہ اٹھایا اور اب 12 سال سے میں خود کما کر اپنا ، اپنے شوہر اور اپنے دو بچوں کا خرچہ اٹھا رہی ہوں۔ میرے دو بیٹے ہیں ایک کی عمر 19 سال اور ایک کی 17 سال ہے ۔میں نے عدالت سے تین مہینے پہلے خلع لی ہے اور شوہر سے جب خلع کے کاغذ پر سائن کا مطالبہ کیا تو کہتے ہیں کہ یا تو گھر میرے نام کرو یا 30 لاکھ مجھے دو پھر طلاق نامہ پر دستخط کروں گا۔ یہ گھر میں نے اپنا سونا بیچ کے لیا ہے اور سونا بھی میری امی نے مجھے شادی پر دیا تھا ۔میرے شوہر تین سال سے بار بار بتائے بغیر گھر چھوڑ کر چلے جاتے تھے ،کبھی تین تین دن کے لیے، کبھی چھ مہینوں کے لیے۔ 21 سال میں نے بہت قربانیاں دی ہیں۔میرے شوہر گھر کا سامان بھی بیچ کر آجاتے تھے نیز میرے شوہر کے نامحرم عورتوں سے تعلقات بھی تھے۔ اس عرصہ میں میرے ساتھ کوئی ازدواجی تعلقات بھی نہیں تھے۔ میرے شوہر گھر میں الماری سے میرے اور میرے بچوں کے پیسے بھی چوری کرتے تھے ۔ میرے شوہر مجھ پر ہاتھ بھی اٹھاتے تھے، دو بار تو میرا گلا بھی دبایا ،اس کے علاوہ میں نے ان کے بہت سے قرضے بھی اتارے جو انہوں نے لوگوں کے دینے تھے ،میں بہت تھک گئی تھی ۔میرے گھر والوں اور سسرال والوں نے کہا کہ اب یہ رشتہ ختم کرو ،اس لیے میں عدالت گئی ۔قانونی طور پر میری خلع ہو گئی ہے۔ اب میں دوسری شادی کی خواہش مند ہوں۔
لہذا آپ بتائیں شریعت نے میرے لیے کیا حکم ہے؟ مجھے عدت کا بھی بتائیں۔ چھ مہینوں سے میں شوہر کے ساتھ ایک گھر میں نہیں ہوں ۔ میری اتنی آمدنی نہیں کہ میں ان کو دستخط کے لیے 30 لاکھ دے سکوں، مجھے تو وکیل کی فیس بھی میرے رشتہ دار نے کر کے دی ہے، میں تو وکیل کی فیس بھی برداشت نہیں کر سکتی تھی ۔ دونوں بچے میرے ساتھ رہتے ہیں ۔ میرا حق مہر پانچ سو روپے تھا ۔ میرے بھائی نے بہت کوشش کی کہ میرا گھر بن جائے مگر اب سب رشتہ دار بھی تھک گئے ہیں۔ لہذا اپ مجھے بتائیں کیا شرعی طور پر میری علیحدگی ہو گئی ہے اور عدت کا کیا حکم ہے؟
تنقیح : سائلہ نے فون پر بتایا کہ عدالت میں ان کی دو بہنوں اور ایک بیٹے (جس کی عمر 19 سال ہے) نےان کے حق میں گواہی دی تھی۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
خلع مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے، جس طرح دیگر مالی معاملات معتبر ہونے کے لیے جانبین (عاقدین ) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے ، اسی طرح خلع معتبر ہونے کے لیے بھی زوجین ( میاں بیوی) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے۔ لہذا خلع کے لیے شوہر کی رضامندی اور اجازت ضروری ہے ، شوہر کی رضامندی کے بغیر عدالت کی طرف سے جاری کیا گیا یکطرفہ فیصلہ شرعا نافذ نہیں ہوتا اور بیوی بدستور سابقہ شوہر کے نکاح میں رہتی ہے، جبکہ شوہر کی رضامندی کے بغیر فسح نکاح کا اختیار جج کو صرف درج ذیل صورتوں میں حاصل ہوتا ہے :
- شوہر نامرد ہو۔
- متعنت ہو یعنی نان نفقہ نہ دیتا ہو اور نہ طلاق دیتا ہو۔
- مفقود یعنی ایسا لاپتہ ہو کہ اس کا کوئی حال احوال معلوم نہ ہو۔
- غائب غیر مفقود ہو یعنی پتہ معلوم ہو، لیکن نہ خود بیوی کے پاس آتا ہو اور نہ بیوی کو اپنے پاس بلاتا ہو اور نہ اسے نان نفقہ فراہم کرتا ہے۔
- ایسا پاگل ہو یا ایسا تشدد کرتا ہو کہ اس کے ساتھ رہنے میں نا قابل برداشت تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو۔
ان کے علاوہ محض عورت کی ناپسندیدگی کی بناء پر جج کو فسخ نکاح کا اختیار حاصل نہیں ہوتا، نیز فسخ نکاح کی ان وجوہات میں سے ہر ایک وجہ کی الگ الگ تفصیلی شرائط ہیں، نکاح فسخ کرتے وقت ان کی رعایت رکھنا لازم ہے، اگر ان میں سے کسی شرط کی رعایت نہ رکھی جائے تو فسخ نکاح کا فیصلہ شرعانافذ نہیں ہوتا۔ ( فقہی مقالات : 192/2)
البتہ عورت مذکورہ بالا وجوہ میں سے جس وجہ کی بنیاد پر بھی فسخ نکاح کا دعوی دائر کرے اسے اپنے دعوی کو شرعی شہادت (کم از کم دو نیک و صالح مردوں یا انہی صفات کی حامل دو عورتوں اور ایک مرد کی گواہی) سے ثابت کر نا پڑے گا، شرعی شہادت کے بغیر محض عورت کے دعوی کی بنیاد پر عدالت کو فتح نکاح کا حق حاصل نہیں۔)ماخوذ از تبویب: 87257)
سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق اگر واقعتا شوہر نان ونفقہ نہیں دیتا تھا اور مارتا پیٹتا تھا تو اس صورت میں شوہر کے طلاق یا خلع نہ دینے پر آپ کے لیے عدالت سے فسخِ نکاح کی ڈگری لینا جائز تھا اور عدالت نےجب آپ کے حلفیہ بیان اور آپ کی دو بہنوں کی گواہی کےذریعہ دعوی کو ثابت تسلیم کرتے ہوئے فسخِ نکاح کا فیصلہ کر دیا تو مالکیہ کے مسلک کے مطابق عدالت کا یہ فیصلہ درست اور نافذ ہے، اگرچہ اس فیصلہ میں خلع کے الفاظ لکھے گئے ہیں اور خلع کے لیے زوجین کی باہم رضا مندی ضروری ہے، اس لیے ضرورت کے پیشِ نظر عدالت کے ان الفاظ کو فسخِ نکاح پر محمول کیا جائے گا، لہذا فیصلہ جاری ہونے کی تاریخ سے عورت کی عدت شروع ہو چکی ہے اور وہ عدت مکمل ہونے پر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے۔
حوالہ جات
بدائع الصنائع : (315/4)
وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول.
المبسوط للسرخسي (6/ 173):
(قال): والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض، فلا معنى لاشتراط حضرة السلطان في هذا العقد.
بداية المجتهد ونهاية المقتصد (4/ 252) دار الحديث – القاهرة:
وأما ثبوت الحق على المدعى عليه بنكوله فإن الفقهاء أيضا اختلفوا في ذلك، فقال مالك، والشافعي وفقهاء أهل الحجاز وطائفة من العراقيين: إذا نكل المدعى عليه لم يجب للمدعي شيء بنفس النكول، إلا أن يحلف المدعي أو يكون له شاهد واحد..... ومن حجة مالك أن الحقوق عنده إنما تثبت بشيئين: إما بيمين وشاهد، وإما بنكول وشاهد، وإما بنكول ويمين.
المدونة (4/ 28):
[في اليمين مع شهادة المرأتين]
قلت: أرأيت إن شهدت امرأتان أنه أوصى لهذا الرجل بكذا وكذا، أتجوز شهادتهما في قول مالك؟
قال: نعم جائزة، فإن لم يكن غيرهن حلف معهن واستحق حقه.
مواهب الجليل من أدلة خليل (4/ 252):
ثم إن اليمين مع الشاهد زيادة حكم على لسان رسول الله صلى الله عليه وسلم كنهيه عن نكاح المرأة على عمتها وخالتها مع قوله تعالى: {وأحل لكم ما وراء ذلكم} الآية، وكنهيه عن لحوم االحمر الأههلية وكل ذي ناب من السباع مع قوله تعالى: {قل لا أجد في ما أوحي إلي محرما} الآية. وكالمسح على الخفين والقرآن إنما ورد بغسل الرجلين أو مسحهما، ومثل هذا كثير. ا. هـ. منه.
ومعلوم أن قول المصنف: أو أحدهما بيمين يفيد أنه إن لم يكن الشاهدان رجلين، فيجوز شهادة رجل وامرأتين، أو رجل ويمين، أو امرأتين ويمين، وهذا المذهب،
التوضيح في شرح مختصر ابن الحاجب (7/ 563):
وهو قول ابن الماجشون وروايته، واختاره سحنون، ونص سحنون على أن المرأتين كالعدل في القصاص، قال: لأن من أصلنا أن كل شيء يجوز فيه شاهد ويمين تجوز فيه شهادة امرأتين، وأجرى صاحب المقدمات على هذا الخلاف خلافا في حد القذف هل يثبت بالشاهد مع اليمين؟ نص في البيان على أن المعروف عدم ثبوته إلا بشاهدين.
ارسلان نصیر
دارالافتاء ،جامعۃ الرشید ،کراچی
01/ذی الحج 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | راجہ ارسلان نصیر بن راجہ محمد نصیر خان | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |