87725 | نکاح کا بیان | محرمات کا بیان |
سوال
میرے ایک رشتہ دارنے سن2018میں اپنی بیٹی کے ساتھ زنا کی کوشش کی،جس کی تفصیل یہ ہےکہ ایک صبح ماں نے یعنی اس مردکی بیوی نے اپنی بیٹی کودھشت زدہ پایا،پوچھنے پر بچی نے بتایاکہ رات کواس کاباپ اس کوعلیحدہ لے گیا اورمیرے ساتھ کچھ کیاہے،میری شرم گاہ میں جب تکلیف شروع ہوئی تواس نے میرے منہ کودپوچ لیا،جب ماں نےبچی کی شلواردیکھی تواس پرمنی کے داغ پائے،اس پراس مردنے قرآن پرہاتھ رکھ کرقسم کھائی کہ اس نے زنانہیں کیا اورنہ اس کی نیت تھی،بیٹی کی عمراس وقت تقریبا9سال تھی،کیااس صورت میں نکاح باقی رہاتھایاختم ہوگیاتھا؟پھرسن 2025میں وہ اپنے بیٹے کے ساتھ ایک تشویش ناک حالت میں پکڑاگیا،لڑکے نے اقرارکیاکہ اس مرد نے بچہ کانفس پکڑا اوربیٹے کے ساتھ یہ شنیع حرکت کی ہے،اس کے بعدوہ مرد اپناگھرچھوڑکرجاچکاہے،اس کی بیوی اب علیحدگی چاہتی ہے،جبکہ اس کابھائی صلح کامتمنی ہے،اس بارے میں شرعی راہنمائی بتادیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
1.۔حرمت مصاہرت کے ثبوت کے لئے ضروری ہے کہ لڑکی کی عمر کم ازکم نوسال ہو اور ظاہری جسمانی طورپرقابل اشتہاء ہو،اگرلڑکی کی عمر نوسال سے کم ہے یانوسال ہے لیکن جسمانی اورصحت کے اعتبارسے وہ قابل اشتہاء نہیں ہے تواس صورت میں اس لڑکی کوشہوت کے ساتھ چھونے یاجسمانی تعلق قائم کرنے سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی۔
۲۔زناکے علاوہ دیگردعووں کے اثبات کے لئے دومرد یاایک مرداوردوعورتوں کی گواہی یاخوداس شخص کااقرارجرم ضروری ہے،لہذاحرمت مصاہرت کے اثبات کے لئے بھی اقرار یاگواہی ضروری ہے۔
صورت مسؤلہ میں اگربیٹی کی عمرنوسال سے کم تھی یانوسال ہونے کے باوجود جسمانی صحت کے اعتبارسے وہ قابل اشتہاء نظرنہیں آتی تواس صورت میں حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوئی،اگرجسمانی اعتبارسے قابل اشتہاءتھی،لیکن والدقسم کھاکراس عمل کاانکارکرتاہے نیزاس کے اس جرم پردومردوں یاایک مرداوردعورتوں کی گواہی بھی موجود نہیں تواس صورت میں بھی قضاءحرمت ثابت نہیں ہوئی،لیکن اگرعورت کو یقین ہے کہ اس کے شوہرنے بیٹی کے ساتھ غلط کام کیاہے اوراس پرواضح قرائن موجود ہیں(لڑکی کے لباس پررطوبت کادیکھنااوراورلڑکی کاحساس جگہ پرتکلیف کابتاناوغیرہ) تواس صورت میں عورت پردیانتالازم ہے کہ اس مرد سے طلاق یاخلع لےکرالگ ہوجائے،اس کے ساتھ رہناجائزنہیں،لیکن اگرکوشش کے باوجودوہ طلاق یاخلع پرآمادہ نہ ہواورعورت سے زبردستی جسمانی تعلق قائم کرلے تواس کاگناہ مردکوہوگا،عورت کونہیں۔
حوالہ جات
فی رد المحتار (ج 9 / ص 279):
( قوله : فلو جامع غير مراهق إلخ ) الذي في الفتح حتى لو جامع ابن أربع سنين زوجة أبيه لا تثبت الحرمة قال في البحر : وظاهره اعتبار السن الآتي في حد المشتهاة أعني تسع سنين .
قال في النهر: وأقول : التعليل بعدم الاشتهاء يفيد أن من لا يشتهي لا تثبت الحرمة بجماعه ولا خفاء أن ابن تسع عار من هذا ، بل لا بد أن يكون مراهقا ، ثم رأيته في الخانية قال الصبي الذي يجامع مثله كالبالغ قالوا وهو أن يجامع ويشتهي ، وتستحي النساء من مثله وهو ظاهر في اعتبار كونه مراهقا لا ابن تسع ، ويدل عليه ما في الفتح مس المراهق كالبالغ وفي البزازية المراهق كالبالغ حتى لو جامع امرأته أو لمس بشهوة تثبت حرمة المصاهرة .
وبه ظهر أن ما عزاه الشارح إلى الفتح وإن لم يكن صريح كلامه لكنه مراده .
فتحصل من هذا : أنه لا بد في كل منهما من سن المراهقة وأقله للأنثى تسع وللذكر اثنا عشر ؛ لأن ذلك أقل مدة يمكن فيها البلوغ۔
وفی رد المحتار (ج 3 / ص 261):
واختلفوا في تقدير حد الشهوة ، فقيل: سبع ، وقيل: تسع وسيأتي في باب الإمامة تصحيح عدم اعتباره بالسن، بل المعتبر أن تصلح للجماع ، بأن تكون عبلة ضخمة ، وهذا هو المناسب اعتباره هنا فتدبر۔
وفی الدر المختار للحصفكي (ج 6 / ص 7):
(و) نصابها (لغيرها من الحقوق سواء كان) الحق (مالا أو غيره كنكاح وطلاق ووكالة ووصية واستهلال صبي)۔۔۔( رجلان۔۔۔أو رجل وامرأتان)
وفی الدرالمختار(126/8):
وان ادعت الشہوۃ فی تقبیلہ اوتقبیلھا ابنہ وانکرھاالرجل فھومصدق،لاھی الاان یقوم الیھا منتشراآلتہ فیعانقھا لقرینۃ کذبہ اویاخذ ثدیھا اویرکب معھا اویمسھاعلی الفرج۔
وفی تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق (ج 6 / ص 290):
”والمرأة كالقاضي لا يحل لها أن تمكنه إذا سمعت منه ذلك أو علمت به ؛ لأنها لا تعلم إلا الظاهر “
محمد اویس
دارالافتاء جامعة الرشید کراچی
۳/ذی الحجہ۱۴۴۶ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اویس صاحب | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |