03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بغیرشرعی عذرکے خلع لینے کاحکم
87726طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

میرے میرے بیٹے کی شادی جنوری 2023 میں ہوئی تھی۔ نومبر 2023 میں اللہ تعالیٰ نے نرینہ اولاد عطا فرمائی۔ دسمبر 2023 میں بیٹے کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ وہ اب تک بے روزگار ہے اور صحت کے مسائل سے نبرد آزما ہے۔ مگر دسمبر 2024 میں اس کی بیوی نے اپنی بہن کے اکسانے پر عدالت سے خلع کی درخواست دائر کر دی۔ مقامی عدالت نے نوٹس بھیجا اور ہم نے وکیل کے ذریعے جواب جمع کروا دیا۔ تیسری پیشی پر عدالت نے خلع کی ڈگری جاری کر دی۔

چونکہ ہم نے کسی قسم کا جہیز نہیں لیا تھا، اس لیے خرچے وغیرہ کے نوٹس کا معاملہ نہیں بنا۔ لڑکی بچہ اپنے ساتھ لے گئی ہے اور ہم سے، یعنی ددھیال والوں سے، ملنے بھی نہیں دیتی۔

مگر ہم شرعی طور پر یہ جاننا چاہتے ہیں کہ چونکہ بچے کا والد بیمار اور بے روزگار ہے اور مالی طور پر ہم پر انحصار کر رہا ہے، تو کیا اس صورت میں بچے کے اخراجات شرعی طور پر دادا کے ذمے ہیں؟ اگر دادا کے ذمے ہیں تو آگاہ کر دیں تاکہ ہم کسی طور پر رابطہ کرکے خرچہ بھیج سکیں۔ ہم قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہو کر بچے کے اخراجات کے ذمے دار بننے سے بچنا چاہتے ہیں۔

جبکہ لڑکی نے خود ہی خلع لی ہے اور بالواسطہ یہ پیغام بھی بھجوایا ہے کہ "مجھے آپ کے خرچے کی کوئی ضرورت نہیں"، لیکن ہم اللہ کی حدود کو توڑنا نہیں چاہتے۔

میری آپ اللہ والوں سے یہ درخواست ہے کہ ہم ددھیال والے اور بچے کا باپ اس معصوم بچے کی جدائی کی وجہ سے بہت پریشان ہیں۔ چونکہ بچے کی ماں ایک سرکاری ہسپتال میں بطور ڈاکٹر ڈیوٹی کرتی ہے، اور بچے کو اس نے اپنی معذور ماں کے سپرد کیا ہوا ہے، جو کہ بچے کی مناسب دیکھ بھال سے قاصر ہے اور صحت کے مسائل سے دوچار رہتی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ بچہ ہمارے پاس ہو۔چونکہ بچہ خاندان کا پہلا بچہ ہے، ہم اس کو لینا چاہتے ہیں۔ مگر عدالتوں کے ذریعے مزید ذلت اور رسوائی کے بغیر کوئی آسان قرآنی وظیفہ بتا دیں کہ بچے کی ماں کا دل نرم ہو جائے اور وہ بچہ ہمارے حوالے کر دے۔ ہم عدالتوں میں قانونی چارہ جوئی اور لاحاصل لڑائی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ امید ہے کہ آپ پہلی فرصت میں اپنے مصروف وقت میں سے وقت نکال کر جواب عنایت فرمائیں گے۔

براہِ کرم بتائیے:

  1. کیا شرعی عذر کے بغیر خلع ہو سکتی ہے؟
  2. ایسی صورت میں بچے کا خرچ والد کے ذمے ہوتا ہے یا نہیں؟
  3. کیا بچے کو ددھیال والوں سے ملنے سے روکنا شرعاً جائز ہے؟
  4. کوئی آسان قرآنی وظیفہ بتا دیں کہ بچے کی ماں کا دل نرم ہو جائے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

١۔سوال میں ذکرکردہ خلع کی ڈگری چونکہ ہمارے سامنے نہیں، اس لیے اس پرتوہم  دیکھے بغیر ہم کوئی تبصرہ نہیں کرسکتے،البتہ خلع کا عمومی حکم یہ ہےکہ شرعاً خلع کے درست ہونے کے لئے شوہر اور بیوی دونوں کی رضامندی ضروری ہے، دونوں میں سے کسی ایک فریق کی رضامندی کے بغیر شرعاً خلع درست نہیں ہوتی،اس لئے کہ یہ ایک عقدہےجوطرفین کے رضاء سےوجود میں ہوتاہے، لہٰذاشوہرکی مرضی کےبغیر عدالت اگرعورت کوخلع دیدےتو شرعاً وہ خلع معتبرنہیں ،اس خلع سےنکاح ختم نہیں ہوتا، بلکہ نکاح بدستور قائم رہتا ہے۔البتہ چنداسباب ایسےہیں(مثلاً: شوہر کانامرد یا مجنون ہونایابیوی کوبلاوجہ نان نفقہ نہ دینا یا بیوی پر تشدد کرنا وغیرہ)کہ اگر شرعی گواہوں کے ذریعہ سے عدالت میں ان کو ثابت کیا جائے تو ان کی وجہ سےعدالت  نکاح فسخ کرسکتی ہے۔

صورتِ مسئولہ میں اگر شوہر کی جانب سے بیوی کے شرعی حقوق کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہیں پائی گئی اور آئندہ بھی شوہر بیوی کے ہر قسم کے حقوق ادا کرنے کیلئے تیار ہے توفسخ ِ نکاح کی کوئی شرعی بنیاد موجود نہیں،اس صورت میں فسخ غیر معتبرہوگا،اوراگرکوئی معقول سبب موجود تھا تو فسخ معتبرہوگی ،لیکن اس کا فائنل فیصلہ خلع کی مذکورہ ڈگری دیکھ کرکیاجاسکے گا۔

واضح رہےکہ بلاوجہ خاوندسے جدائی کامطالبہ کرنا سخت گناہ کی بات ہے، حدیث میں جوبلا کسی شرعی  وجہ کے خاوند سے طلاق یا خلع کا مطالبہ کرنے والی عورت  کے بارے میں سخت وعید آئی  ہے ،لہذا جب تک کوئی شرعی عذرنہ ہوجدائی کے مطالبہ سے مکمل اجتناب کرناچاہیے۔

۲۔ میاں بیوی کی جدائی کے بعد لڑکے کی عمر سات سال ہونے تک اس کی پرورش کا حق ترتیب وارماں کو، پھر نانی کو، پھر دادی کو حاصل ہوتا ہے۔مگر اس کا نان و نفقہ دادا کے ذمہ نہیں، بلکہ والد کے ذمہ ہوتا ہے۔صورتِ مسئولہ میں اگرچہ وہ (والد) کماتا نہیں ہے، مگر جب آپ لوگ اسے خرچ دے رہے ہیں تو اس پر لازم ہے کہ وہ بچے کا نان و نفقہ اس میں سے بچے کو بھیجے۔

۳۔میاں بیوی میں جدائی ہوجانے کے بعد باپ کو اُس کی اولاد سے ملنے سے نہیں روکا جاسکتا۔ لہذا جب بھی بچے کا باپ بچے سے ملنا چاہے گا تو اُسے اُن سے ملنے کی اجازت ہوگی، بچے کو باپ سے ملنےنہ  دینا گناہ ہے، جس سےاجتناب ضروری ہے۔

۴۔ اس مقصد کےلیے سورۂ  قریش اوریَا لَطِیْفُ یَا وَدُوْدُکثرت سے پڑھیں ، ان شاءاللہ بہتری ہوگی۔

حوالہ جات

بدائع الصنائع ، دارالكتب العلمية - (3 / 145)

وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول.

وفی سنن الترمذي - (ج 2 / ص 329):

عن ثوبان ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (المختلعات هن المنافقات) هذا حديث غريب من هذا الوجه وليس إسناده بالقوى . وروى عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال : (أيما امرأة اختلعت من زوجها من غير بأس ، لم ترح رائحة الجنة) 1199 حدثنا بذلك محمد بن بشار . حدثنا عب الوهاب الثقفى حدثنا أيوب ،عن أبى قلابة ، عمن حدثه ، عن ثوبان : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : (أيما امرأة سألت زوجها طلاقا من غير باس ، فحرام عليها رائحة الجنة) وهذا حديث حسن .

وفی سنن ابن ماجة للقزويني - (ج 2 / ص 172)

عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال : أتى النبي صلى الله عليه وسلم رجل فقال : يا رسول الله ! إن سيد زوجنى

أمته ،وهو يريد أن يفرق بينى وبينها ، قال ، فصعد رسول الله صلى الله عليه وسلم المنبر فقال " يا أيها الناس ! ما بال أحدكم يزوج عبده أمته ثم يريد أن يفرق بينهما ؟ إنما الطلاق لمن أخذ بالساق " .

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (3 / 566)

(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب.

ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرا وإلا لا (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية.

وفی الھندیة :

"نفقة الأولاد الصغار على الأب لايشاركه فيها أحد، كذا في الجوهرة النيرة". (الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ١/ ٥٦٠، ط: رشيدية)

وفيه أيضاً:

"و بعد الفطام يفرض القاضي نفقة الصغار على قدر طاقة الأب و تدفع إلى الأم حتي تنفق علي الأولاد، فإن لم تكن الأم ثقةً تدفع إلى غيرها لينفق على الولد". (١/ ٥٦١)

وفي الدر المختارمع رد المحتار:

"وفي المجتبى: ‌نفقة ‌العدة كنفقة النكاح. وفي الذخيرة: وتسقط بالنشوز وتعود بالعود."(کتاب الطلاق،باب النفقہ ،ج:۳،ص:۶۰۹،سعید)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين  (3/ 571):

"يؤيده ما في التتارخانية: الولد متى كان عند أحد الأبوين لا يمنع الآخر عن النظر إليه وعن تعهده. ولا يخفى أن السفر أعظم مانع. (قوله: كما في جانبها) أي كما أنها إذا كان الولد عندها لها إخراجه إلى مكان يمكنه أن يبصر ولده كل يوم."

الفتاوى الهندية (1/ 543):

"الولد متى كان عند أحد الأبوين لا يمنع الآخر عن النظر إليه وعن تعاهده كذا في التتارخانية ناقلا عن الحاوي."

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

2/12/1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب