03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مختلف الفاظ سے طلاق دینے کا حکم
87752طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بابت کہ میری بہن مسمات عنبر بنت غلام فرید کا نکاح مسمی عاطف محمود ولد خالد محمود کے ساتھ 2021 میں ہوا ۔زوجین میں اکثر چپقلش رہتی تھی  جس کی وجہ سے دونوں خاندانوں کے کچھ معزز حضرات نے مل بیٹھ کر یہ طے کیا کہ یہ دونوں میاں بیوی معاملات کو سنجیدگی سے حل کرنے کی بجائے آئے روز جھگڑتے ہیں اس لئے ان کے درمیان ایک طلاق رجعی کروا دی جائے ،ہوسکتا ہے دونوں کو کچھ سمجھ آ جائے اور ان کی زندگی میں بہتری آ جائے ، میرے بہنوئی عاطف محمود اور ان کے والد اس بات پر رضامند نہ تھے۔ ہم نے بھی اس بات سے اختلاف کیا،مگر بڑوں کے فیصلے کے سامنے خاموشی اختیار کرلی، چنانچہ دو ماہ قبل ایک پنچایت ہوئی۔ ہمارے بزرگوں میں سے ایک شخص میرے بہنوئی کو ہمارے گھر لائے اور کہا کہ آپ اپنی بیوی سے کہیں کہ ’’عنبر تم آزاد ہو ، عنبر تم آزاد ہو ‘‘ دو بار کہلوایا، تیسری بار یہ کہلوایا کہ’’ عنبر میری طرف سے تمہیں ایک طلاق ہے‘‘۔برادری کے ایک معزز شخص نے ایک تحریر تیار کرکے میرے بہنوئی مسمی عاطف محمودکو بنا پڑھ کر سنائے اس تحریر پر دستخط کروالئے۔ چونکہ ہمارے درمیان یہی طے ہوا تھا کہ صرف ایک طلاق دی جائے گی، میرے بہنوئی کو بھی یہی علم تھا ،چنانچہ میرے بہنوئی نے ایک طلاق سمجھتے ہوئے اس تحریر پر دستخط کردئیے، جس کے بعد میرے بہنوئی کو کمرے سے نکال دیا گیا، جب یہ تحریر ہمیں سنائی گئی تو ہم نے کہا کہ اس میں تو آپ نے تین طلاقیں لکھی ہیں جب کہ ہمارے درمیان یہ طے ہوا تھا کہ صرف ایک طلاق لکھی جائیگی جس پر ہمیں یہ کہا گیا کہ لکھنا ایسے ہی پڑتا ہے مگر ہم نے جو کچھ لکھا ہے اس میں رجوع کی گنجائش ہے۔اب آپ راہنمائی فرمائیں کہ اس صورت میں کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں؟اور کیا میرے بہنوئی کو رجوع یا دوبارہ نکاح کا حق حاصل ہے؟کیوں کہ اب دونوں میاں بیوی رجوع کرنا چاہتے ہیں، اور دونوں کے بڑے بھی اس پر رضامند ہیں نیز میں ،میرے والد  اور پنچایت میں موجود سب لوگ حلفاً بیان کرتے ہیں کہ پنچایت میں صرف ایک طلاق رجعی دینا طے ہوا تھا،  اور یہ بھی حلفاً  اقرار کرتے  ہیں کہ میرے بہنوئی کو صرف ایک طلاق کا کہہ کر ان سے دستخط کروائے گئے، انہیں تحریر نہیں سنائی گئی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بطور تمہید یہ واضح رہے کہ طلاق دینا   شوہرکے دائرہ اختیار میں ہے،لہذا پنچایت کےفیصلے کے ذریعہ شوہر کے اختیارات محدود نہیں کئے جاسکتے۔

              ’’تم آزاد ہو‘‘ طلاق کے باب میں یہ کنائی جملہ ہے۔اس جملے کے ذریعہ طلا ق اس  صورت میں واقع ہوتی ہے کہ جب الفاظ کی ادائیگی کے وقت شوہر کی نیت ہو،یا بیوی کی جانب سے طلاق کا مطالبہ ہو ،یا شوہر غصے کی حالت میں ہو۔

            سوال میں مذکور صورت حال میں جب شوہر نے بیوی سے یہ کہا کہ ’’عنبر !تم آزاد ہو‘‘ تو اس سے ایک طلاق بائن واقع ہوگئی، اور نکاح ختم ہو گیا۔بعد ازاں جب اسی جملے کو اس نے دہرایا تو وہ طلاق بائن ہونے کی وجہ سے کالعدم ہوگیا،تاہم جب تیسری مرتبہ صراحتا یوں کہا کہ’’ عنبر میری طرف سے تمہیں ایک طلاق ہے‘‘،تو اس سے  ایک اورطلاق واقع ہوگئی ،یعنی کل دو ہوگئیں۔اور جب تحریر پر دستخط کئے تو، اگر اس  تحریر کا مقصد زبانی کاروائی کو دستاویزی شکل دینا تھا اوراس سے مستقل طلاق کی نیت نہیں تھی جیسا کہ  آپ کے بہنوئی کو اس کے مندرجات کا بھی علم نہیں تھا ،تو ایسے میں یہ تحریرتاکید پر محمول کر کےمستقل طلاق شمار نہیں کی جائے گی۔لہٰذاایسےمیں اگر دونوں فریق اپنی  ازدواجی حیثیت بحال کرنا چاہتے ہیں تو از سر نو نکاح کیا جاسکتا ہے اور آئندہ زوج کو صرف ایک طلاق کا اختیار باقی رہے گا ۔  لہٰذا عورت کی ذمے داری ہےکہ وہ اپنی شوہر سے معلوم کرےکہ تحریر پر دستخط سے اس کا کیا مقصد تھا؟پھر اس کے مطابق عمل کرے۔

حوالہ جات

حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي (3/ 301):

والحاصل أن الأول يتوقف على النية في حالة الرضا والغضب والمذاكرة، والثاني في حالة الرضا والغضب فقط ويقع في حالة المذاكرة بلا نية، والثالث يتوقف عليها في حالة الرضا فقط، ويقع حالة الغضب والمذاكرة بلا نية.

حمادالدین قریشی

  دارالافتاءجامعۃ الرشید، کراچی

5    /ذی الحج 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

حماد الدین قریشی بن فہیم الدین قریشی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب