| 88018 | فیصلوں کے مسائل | ثالثی کے احکام |
سوال
ہمارے ازدواجی تعلقات کی ناچاقیوں کی وجہ سے فیصلہ جرگے والوں کے پاس گیا۔ جرگہ بلانے پر دونوں فریقین راضی تھے۔ جرگے نے خود ہی کہا کہ :ہم انصاف نہیں کر سکتے، اس لیے درمیانی بات طے کر رہے ہیں، پھر جرگے والوں نے فیصلہ کیا ، جس میں غلطی کی تعیین بھی نہیں کی گئی، بلکہ کسی بات کو بنیاد بنا ئے بغیر یہ فیصلہ کیا گیا کہ آدھا زیور بیوی کے پاس ہوگا اور آدھا زیور شوہر کے پاس ہوگا ، جبکہ اصل مسئلہ حل نہیں ہوا ، نہ تو میاں بیوی کے تعلقات ٹھیک ہوئے اور نہ ہی کوئی صلح ہوئی۔ بس صرف زیورات کی تقسیم ہوگئی۔
اب سوال یہ ہے :
کیا شرعاً یہ فیصلہ قابل قبول ہے یا نہیں؟
وضاحت: یہ بات ملحوظ نظر رہے کہ میں نے بیوی کو اب تک نہ تو طلاق دی ہے اور نہ ہی ہم نےخلع کیا ہے۔
تنقیح: سائل نے زبانی بتایا کہ لڑکی بھی میکے میں ہے اور وہ کسی صورت میں نباہ نہیں چاہتی ، جبکہ اس کا والد سارے زیورات وغیرہ اپنےپاس رکھنے کا مطالبہ بھی کررہا ہے ۔جبکہ لڑکا خلع کے لئے آمادہ ہے ، طلاق دینے پر راضی نہیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مسئولہ میں جو فیصلہ جرگے نے کیا ہے، وہ انصاف پر مبنی نہیں ،خاص کر جب جرگے والوں نے خود کہا کہ ہم انصاف نہیں کرسکتے۔اس سے نہ تو اصل مسئلہ حل ہورہا اور نہ ہی یہ صلح ہے۔لہذا یہ فیصلہ نافذ نہیں ہوگا۔اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:
الف۔ شادی کے بعد مہر عورت کا حق ہے، لہذا عورت سے بغیر کسی وجہ کے آدھا مہر لینا جائز نہیں ہے۔
ب۔مرد چاہتا ہے کہ بیوی کے ساتھ پورے حق مہر کے بدلے خلع کرلے، لہذا اگر بیوی پورے حق مہر کے بدلے خلع کرنے پر راضی ہوجائے تو مرد کو پورا مہر واپس ملنا چاہئے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اگر شوہر بیوی کو طلاق دیتا ہے تو پورا حق مہر بیوی کا حق ہے اور اگر دونوں باہمی رضامندی سے خلع کرتے ہیں تو شوہر کے لئے اتنا مال واپس لینا جائز ہے، جتنا اس نے حق مہر میں دیا تھا۔
حوالہ جات
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 108):
وإذا حكم رجلان رجلا فحكم بينهما ورضيا بحكمه جاز" لأن لهما ولاية على أنفسهما فصح تحكيمهما وينفذ حكمه عليهما، وهذا إذا كان المحكم بصفة الحاكم لأنه بمنزلة القاضي فيما بينهما فيشترط أهلية القضاء، ولا يجوز تحكيم الكافر والعبد والذمي والمحدود في القذف والفاسق والصبي لانعدام أهلية القضاء اعتبارا بأهلية الشهادة والفاسق إذا حكم يجب أن يجوز عندنا كما مر في المولى "ولكل واحد من المحكمين أن يرجع ما لم يحكم عليهما" لأنه مقلد من جهتهما فلا يحكم إلا برضاهما جميعا "وإذا حكم لزمهما" لصدور حكمه عن ولاية عليهما "وإذا رفع حكمه إلى القاضي فوافق مذهبه أمضاه" لأنه لا فائدة في نقضه ثم في إبرامه على ذلك الوجه "وإن خالفه أبطله" لأن حكمه لا يلزمه لعدم التحكيم منه.
محمد اسامہ فاروق
دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی
13/محرم الحرام 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اسامہ فاروق بن محمد طاہر فاروق | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |


