03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قاضی/جرگہ/ثالث کا قرائن کے مطابق تین طلاق کا فیصلہ کرنے کا حکم (اہم)
88380فیصلوں کے مسائلثالثی کے احکام

سوال

(سوال متعلق فتویٰ نمبر:88123165 بعنوان میاں بیوی کےدرمیان تین طلاقوں میں اختلاف کا حکم)

مفتی صاحب ! آپ کا بھیجاگیافتوی مدلل ومبرہن ہے اور ہمارے لیے حجت ہے، لیکن اس فتوی کاتعلق دیانت سے ہے کہ دیانتاً بیوی اپنے شوہرپر حرام ہوچکی ہے، جبکہ زیربحث مسئلہ پنچائت اور جرگہ کے حوالے سےہے تو کیا اہلِ جرگہ موصوفہ (نازش بنت ناصرخان)پرمطلقہ مغلظہ کاحکم لگاسکتے ہیں یانہیں ؟اگرلگاسکتے ہیں تو کس دلیل کی بنیاد پر ؟اوراگرنہیں لگاسکتے تو کیاکیاجائے؟ کیونکہ دیانات پرعمل ایسے حالات میں  بہت مشکل ہے، خاندانوں کے درمیان لڑائی جھگڑے تک نوبت آچکی ہے، اہل جرگہ کاتعلق چونکہ قضاءسےہے، تو کیاہم اہلِ جرگہ نازش بنت ناصرخان (مطلقہ مغلظہ دیانتا) پر ان کے بیانات کی روشنی میں دیانت کے مطابق طلاقِ ثلاثہ کے وقوع کاحکم لگاسکتے ہیں ؟ فقہائے کرام نے قضاء بعلمہ کاتذکرہ فرمایا ہےاورقضاءبعلمہ میں اصل مذہب جواز کاہے، مگرمتاخرین نے لتغیراحوال الناس عدم جواز کافتوی دیاہے اور قضاءبعلمہ کا جومطلب ومفہوم میرے ذہن میں ہے  وہ یہ ہے کہ قاضی کو کسی بات کا یقینی علم حاصل ہو (براہ راست مشاہدہ کرنےیاخودسننےسے) اور زیربحث مسئلہ میں ہمارا علم مدعیہ کےبیان کیساتھ جڑاہواہے تو کیا مدعیہ کے بیان سے حاصل شدہ علم کی بنیاد پر قضاء بعلمہ جائز ہوسکتاہے ؟ البتہ عورت کے دعوی پر کچھ قرائن ہیں، جیسے لڑکے کا یہ کہنا کہ میں تمہارا حلالہ کروا دوں گا اور تمہارے گھر والوں سے معافی مانگ لوں گا وغیرہ۔ یادرہے کہ جرگہ فریقین کے اتفاقِ رائے سے منتخب ہوا ہے۔اس سوال کی وضاحت کے لیے مدلل ومبرہن اور مفصل جواب مطلوب ہے،  اللہ تعالی آپ کے علم وعمل میں اضافہ فرمائے اور تا دم آخر ہم سب کو دین کےساتھ وابستگی اور جڑے رہنے کی توفیق عطافرمائے، امین۔

وضاحت: عورت لڑکے سے قسم لینے پر تیار نہیں ہے، اس نے بھری مجلس میں کہا کہ اگر اس کے سر پر قرآن بھی رکھ دو تو مجھے اس پر یقین نہیں آئے گا، کیونکہ یہ جھوٹ بولتا ہے، یہ مجھے پہلے بھی طلاقیں دے چکا ہے، البتہ عورت کے پاس اپنے دعوی پر گواہ نہیں ہیں، کیونکہ اس وقت موقع پر کوئی نہیں تھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بطور تمہید جاننا چاہیے کہ فقہائے کرام رحمہم اللہ نے حدود وقصاص کے علاوہ تمام معاملات (خواہ مالی معاملات ہوں، جیسے خریدوفروخت وغیرہ یا غیرمالی معاملات ہوں، جیسے طلاق اور نکاح وغیرہ) میں اقرار،گواہ، قسم اور نکول کے علاوہ قرینہٴ قطعیہ کو بھی طرقِ قضاء میں ذکر فرمایا ہے، چنانچہ مجلة الاحکام العدلیہ کے مادة (1741) اور معین القضاة کے مادہ (307)کےتحت قرینہٴ قاطعہ کا مستقل ذکر کیا گیا ہے اور  پھر مجلہ کی شروح میں علامہ محمد خالد اتاسی اور علامہ علی حیدر رحمہ اللہ نے اس کی تشریح قرینہ واضحہ سے کی ہے اور علامہ خالد اتاسی رحمہ اللہ نے قرینہ کی بنیاد پر فیصلہ کے ثبوت میں  حضرت یوسف علیہ السلام کے قصہ سے استدلال کیا ہے کہ ان کے بھائی جب صحیح سالم خون آلود قمیص لے کر آئے تو حضرت یعقوب علیہ السلام کو تعجب ہوا کہ یہ کیسا بھیڑیا تھا کہ جس نے یوسف علیہ السلام کو کھا لیا اور ان کی قمیص بالکل صحیح سالم رہی؟ پھراسی قرینہ کی بنیاد پر انہوں نے بیٹوں کے جواب میں ارشاد فرمایا: "بل سوّلت لكم أنفسكم" ترجمہ: بلکہ تم نے اپنے دلوں سے یہ بات گھڑ لی ہے۔

اسی لیے معین القضاة،  مجلة الاحکام العدلیہ اور اس کی شروح میں شہادتِ خطیہ (گواہوں کا کاغذات پر دستخط کر کے گواہی دینا)کی بنیاد پر قاضی کو فیصلہ کرنے کا اختیار دینے کے ساتھ یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ  عدالت سے جاری شدہ فیصلے اور حکومتی ادارں میں رجسٹریشن کے کاغذات اگر جعل سازی اور دھوکہ دہی سے محفوظ ہوں تو قاضی کے ذمہ کسی اور ذریعہ سے دعوی کا ثبوت طلب کرنا لازم نہیں، بلکہ صرف انہی کاغذات کی بنیاد پرقاضی کا کسی  ایک فریق کے حق میں فیصلہ کرنا درست ہے اور یہی بات مولانا شمس الحق افغانی صاحب رحمہ اللہ نے معین القضاة میں ذکر فرمائی ہے، بشرطیکہ قاضی/ ثالث کو قرائن کی بنیاد پر کسی فریق کی حقانیت کا یقین یا ظنِ غالب حاصل ہو جائے، دیکھیے عبارات:

مجلة الأحكام العدلية (ص: 352) نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي:

المادة (1736) لا يعمل بالخط والخاتم فقط أما إذا كان سالما من شبهة التزوير والتصنيع فيكون معمولا به أي يكون مدارا للحكم ولا يحتاج للإثبات بوجه آخر.

المادة (1737) البراءات السلطانية وقيود الدفاتر الخاقانية لكونها أمينة من التزوير معمولا بها.

المادة (1738) - (يعمل أيضا بسجلات المحاكم إذا كانت قد ضبطت سالمة من الحيلة والفساد على الوجه الذي يذكر في كتاب القضاء.

مجلة الأحكام العدلية (ص: 353) نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي:

المادة:1741:القرينة القاطعة هي الأمارة البالغة حد اليقين مثلا إذا خرج أحد من دار خالية خائفا مدهوشا وفي يده سكين ملوثة بالدم فدخل في الدار ورئي فيها شخص مذبوح في ذلك الوقت فلا يشتبه في كونه قاتل ذلك الشخص ولا يلتفت إلى الاحتمالات الوهمية الصرفة كأن يكون ذلك الشخص المذكور ربما قتل نفسه.

معين القضاة والمفتين للشيخ شمس الحق الأفغاني (ص:57):

الباب السابع في الحجج الخطّية والقرينة القاطعة: السندات والوثائق الخطية معتبرة لإثبات الدعاوي، يشترط أن تكون مأمونة من الحيل والتزوير وأن تكون مرسومة أي مكتوبة على وقف الرسم والعادة، به أفتى قارئ الهداية شيخ ابن الهمام، وجرى عليه أبو علي النسفي.

علامہ طرابلسی، علامہ خالد اتاسی اور علامہ علی حیدر رحمہم اللہ نے قرینہٴ واضحہ کی بنیاد پر قاضی کے فیصلہ کرنے کی ایک مثال یہ لکھی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی گھر سے اس حال میں نکلا کہ اس کے ہاتھ میں خون آلود چھری تھی اور وہ گھبرایا ہوا اور پریشان حال تھا، جب لوگوں نے اس گھرمیں جا کر دیکھا تو ایک شخص وہاں چھری سے قتل شدہ پڑا تھا تو مجلة الاحکام العدلیہ میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ اسی شخص کو قاتل شمار کیا جائے گا اور وہمی وساوس کا اعتبار نہیں  ہو گا،  البتہ چونکہ یہ مسئلہ قصاص کا ہے، جو شبہ سے بھی ساقط ہو جاتا ہے، اس لیے علامہ شمس الحق افغانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس کو قید میں ڈال دیا جائے گا، یہاں تک کہ یہ شخص قتل کا اقرار کر لے، البتہ حدود وقصاص کے علاوہ امور میں قاضی کا قرائن کی بنیاد پر فیصلہ کرنا نافذاورواجب العمل ہے، چنانچہ مجلة الاحکام العدلیہ میں ہے کہ اگر میاں بیوی گھریلو سامان کی ملکیت کے بارے میں اختلاف کریں توکسی کے پاس گواہی نہ ہونے کی صورت میں جو سامان عورت کے استعمال کا ہو قاضی اس کا عورت کے حق میں فیصلہ کرے گا اور جو مرد کے استعمال کا ہو اس کا فیصلہ مرد کے حق میں کیا جائے گا، اسی طرح فریقین کا کسی راستے کے استعمال کرنے میں جھگڑا ہو جائے، ایک یہ دعوی کرے کہ میں ہمیشہ یعنی پرانے زمانے سے اس راستہ کو استعمال کرتا آ رہا ہوں، جبکہ دوسرا آدمی یہ کہے کہ اس نے ابھی استعمال کرنا شروع کیا ہے اور کسی کے پاس بینہ نہ ہو تو جو شخص قدیم زمانے سے استعمال کی بات کرے گا اس کے حق میں فیصلہ ہو گا، حالانکہ قدیم زمانے سے چیز کا استعمال کرتے آنا ثبوت کا محض ایک قرینہ ہے، علامہ علی حیدر رحمہ اللہ نے درر الحکام میں ایک اہم  مثال یہ ذکر فرمائی ہے کہ اگر کوئی خاکروب کسی گھر کی صفائی کر کے باہر نکلا اور اس کے جسم پر ایک قیمتی چادر ہو، جس پر گھر والا دعوی کرے کہ یہ میری چادر ہے اور اس کے پاس گواہ نہ ہوں تو بھی قاضی گھروالے کے لیے اس چادر کا فیصلہ کرے گا، کیونکہ قرینہ یہ ہے کہ قیمتی چادر عام طور پر خاکروب استعمال نہیں کرتے، اس طرح قرائن کی بنیاد پر قاضی کے فیصلہ كرنےکی اور بھی کئی امثلہ فقہائے کرام رحمہم اللہ نے ذکر کی ہیں، جن کو مجلة الاحکام العدلیہ اور اس کی شروح  میں"تحکیم الحال و من یشھد لہ الظاھر" کے عنوان کے تحت ملاحظہ کیا جا سکتا ہے، جس میں  مثالوں کے ساتھ قرائن کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کے اصول  بھی ذکر کیے گئے ہیں۔

نیزشیخ احمد بن محمد زرقاء رحمہ اللہ  نے شرح القواعد الفقہیہ میں  لکھا ہے کہ کبھی کسی چیز کے قرائن اور شواہد اتنے قوی ہوتے ہیں کہ ان کے خلاف بینہ بھی قبول نہیں کیا جاتا،جو کہ حجت متعدیہ ہے، چہ جائے کہ اس کے خلاف دوسرے فریق کی قسم (جو کہ حجت قاصرہ ہے) کا اعتبار کیا جائے،چنانچہ فقہائے کرام رحمہم اللہ نے لکھا ہے کہ کسی نے کوئی غلام بیچا اور خریدار نے قبضہ کرنے کےبعد دعوی کیا کہ اس میں ایک عیب ہے، وہ یہ کہ ایک ہاتھ کی چھ انگلیاں ہیں، لہذا میں یہ غلام واپس کرنا چاہتا ہوں تو اگر بیچنے والا اس بات پر گواہی بھی پیش کر دے کہ یہ عیب میرے پاس پیدا نہیں ہوا تو اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی، کیونکہ مشاہدہ اس کی گواہی کو ٹھکرا رہا ہے، اس لیے خریدار کے حق میں ہی فیصلہ کیا جائے گا اور اس کو عیب کی بناء پر غلام واپس کرنے کا اختیار ہو گا۔

قرائن کی بنیاد پر قاضی کے فیصلہ کرنے کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے  کہ فقہائے متقدین اور متاخرین سب نے قرائن کی بنیاد پر شہادت دینے کی اجازت دی ہے، چنانچہ دررالحکام اور دیگرکتبِ فقہ میں تصریح کی گئی ہے کہ اگر دو مرد اور عورت کو ایک گھر میں اکٹھا رہتے ہوئے دیکھا جائے اور ان کے درمیان زوجین ی طرح خوش طبعی اور بے تکلفی وہ تو دیکھنے والے کے لیے اس بات کی گواہی دینا جائز ہے کہ یہ عورت اس شخص کی بیوی ہے، اس طرح قرائن کی بناء پر گواہی دینے کی اور بھ کئی امثلہ ذکر کی گئی ہیں اور گواہی بھی من وجہ عملِ قضاء میں شامل ہے، کیونکہ اس کی بنیاد پر قاضی کو فیصلہ کرنے کا اختیار ہوتا ہے، لہذا جب قرائن کی بناء پر گواہی دینا جائز ہے تو قاضی کا فیصلہ کرنا بھی جائز ہے۔

شرح القواعد الفقهية للشيخ محمد زرقاء(ص: 145) الناشر: دار القلم – دمشق:

- قد تكون الدلالة في بعض الأوقات أقوى من الصريح، يثبت بها ما لا يثبت به، وذلك في مسألة واحدة لم أظفر بثانية لها، وهي ما نصوا عليه من أن الحاكم ليس له أن يستنيب آخر عنه إلا إذا كان مفوضا له بالاستنابة صريحا، كول من شئت ونحوه، أو مفوضا له دلالة كجعلناك قاضي القضاة، فإذا كان التفويض له صريحا بما ذكر فإنه يملك الاستنابة ولا يملك عزل النائب،

أما إذا كان التفويض له دلالة فإنه يملك الاستنابة والعزل. (ر: الدر المختار، فصل الحبس، عند قول المتن: ولا يستخلف قاض) . فقد عملت الدلالة هنا ما لا يعمله الصريح، ويثبت بها ما لم يثبت به.

شرح القواعد الفقهية للشيخ محمد زرقاء (ص: 128) الناشر: دار القلم – دمشق:

ما لو اشترى إنسان شيئا ثم جاء ليرده بعيب فيه مدعيا أنه كان موجودا فيه عند البائع، وقال البائع: لا بل حدث العيب عندك بعد القبض، وكان العيب مما يحدث مثله، فإن القول قول البائع والبينة على المشتري. أما لو كان العيب مما لا يحدث مثله كالإصبع الزائدة في العبد، وكالخيف في الفرس - وهو أن تكون إحدى عينيه سوداء والأخرى زرقاء - فإن البائع يلزم به.

درر الحكام شرح مجلة الأحكام لعلي حيدر(485/4) الناشر: دار الجيل:

للناس الذين يشاهدون معاشرة رجل مع امرأة معاشرة الأزواج أن يشهدوا أن تلك المرأة هي زوجة ذاك الرجل حال كونهم لم يحضروا عقد النكاح ولم يعاينوه بالذات انظر شرح المادة (1688) .

إذا وجِد على كنّاسٍ شال ذو قيمة وهو خارِجٌ مِن بَيتِ أحد وتنَازع صاحِب الدّارِ مع الكنّاسِ علَى ذلك الشّال يَكُون الشّال لصاحبِ الدّارِ.

حاصل یہ کہ دیگر طرقِ قضاء کی طرح  قضاء بالقرائن  بھی ایک مستقل بناءِ قضاء ہے اور ایسی صورت میں اس کو قضاء بعلم القاضی نہیں،بلکہ  قضاء بالقرائن کہاجائے گا اور ان دونوں طرق میں فرق یہ ہو گا کہ قضاء بعلم القاضی میں حقیقی صورتِ حال کا علم صرف قاضی کو ہوتا ہے، جیسے اس کا تنہا کسی شخص کے قتل ہونے کا مشاہدہ کر لینا وغیرہ، اس لیے اس میں دیگر لوگوں کو علم نہ ہونے کی وجہ سے قاضی پر تہمت کا اندیشہ ہوتا ہے، جبکہ قضاء بالقرائن میں مدعی کےدعوی میں ذکر کیے گئے قرائن دیگر لوگوں کے بھی علم میں ہوتے ہیں اوراکثر مدعی علیہ بھی ان قرائن کا اقرار کر رہا ہوتا ہے،  جس سے قاضی کے فیصلے کی تائید ہو رہی ہوتی ہے، اس لیے اس میں تہمت کا اندیشہ نہیں ہوتا۔

اس تمہید کے بعد جواب یہ ہے کہ سوال کے ساتھ منسلک میاں بیوی کے مکالمہ میں ذکر کی گئی گفتگو کا اگر شوہر اقرار کرتا ہے، جیسا کہ سوال میں تصریح ہے تو یہ اس بات کا واضح قرینہ ہے کہ وہ عورت کو تین طلاقیں دے چکا ہے، کیونکہ اس نے بیوی کےگھر آنے سے انکار کرنے پراپنی گفتگو کے دوران ایک مرتبہ کہا کہ" ہم حلالہ کروا لیں گے"دوسری مرتبہ پھر کہا کہ" ہم حلالہ کروا لیں گے، میں تمہارےسارے گھر والوں سے معافی مانگ لوں گا، مجھ سے غلطی ہو گئی۔" نیز ایک مرتبہ اس نے کہا کہ "ہم پھر سے نکاح کر لیں گے، سب کچھ نئے سرے سے شروع کریں گے۔"یہ سب گفتگو تین طلاق کے وقوع پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ حلالہ کا عمل شرعاً تین طلاق کے بعد ہی ہوتا ہے، لہذاعورت کو حلالہ کی ترغیب دینا گویا کہ تین طلاق کا اقرار کرنا ہے،نیز پھر اپنی غلطی پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے بیوی کے سب گھر والوں سے معافی مانگنا اور دوبارہ نکاح کرنے کی ترغیب دینا بھی اسی بات کی علامت ہے، ورنہ اگر اس نے تین طلاقیں نہ دی ہوتیں تو پھر سب گھر والوں سے معافی مانگنے،حلالہ کروانے اور دوبارہ نکاح کر کے سب کچھ نئے سرے سے شروع کرنے کا کیا معنی؟ لہذا لڑکے کا اب تین طلاق کا انکار کرنا درحقیقت اپنے بیان سے رجوع ہے اور اس کی فون پر مذکورہ بالا گفتگو اور اس سوال میں درج بیان کے درمیان تعارض کی وجہ سے اس کا کلام شرعاً ساقط اور ناقابل اعتبار ہے، جس کے نتیجے میں عورت کا دعوی ثابت ہے۔  

لہذاپیچھے ذکر کیےگئے قرائن کی روشنی میں پنچائت کا عورت کے دعوی کے مطابق بغیر مدعی علیہ سے قسم لیے تین طلاق کے وقوع کا فیصلہ کرنا درست ہے، خصوصاً جب کہ عورت مدعی علیہ سے قسم لینے کا انکار کررہی ہے  اور ایسی صورت میں قاضی اور ثالث کو قسم لینے کا شرعاًحق حاصل نہیں ہوتا، اس لیے پنچائت  کے افراد شرعا مدعی علیہ سے قسم نہیں لے سکتے، بلکہ سوال میں منقول میاں بیوی کے درمیان حلالہ پر مشتمل گفتگو میں تین طلاق کے وقوع پر واضح قرائن موجود ہیں، لہذا ان قرائن کی بنیاد پر پنچائت یعنی جرگہ کو عورت کے دعوی کے درست ہونے کا یقین یا ظنِ غالب ہو تو اس  کا تین طلاق کا فیصلہ کرنا درست ہے،  خصوصا جبکہ لڑکا یہ بھی اقرار کر چکا ہے کہ منسلکہ سوال میں گفتگو میری ہی ہے۔

حوالہ جات

شرح المجلة لمحمد خالد الأتاسي(ج:5ص:381)مكتبة رشيدية:

قال القرطبي في التفسير لما أرادوا ان يجعلوا الدم علامة صدقهم فرق الله بهذه العلامة علامة تعارضها وهي سلامة القميص من التمزيق إذ لا يمكن افتراس الذئب ليوسف وهو لابس القميص وأجمعوا على أن يعقوب عليه السلام استدل على كذبهم بصحة القميص فقال ( بل سولت لكم انفسكم امرأ (وورد في السنة ان النبي صلى الله عليه وسلم حكم بموجب اللوث في القسامة وجوز للمدعين أن يحلفوا خمسين رجلا يمينا ويستحقوا دم المقتول فاستدل الفقهاء من ذلك على اعمال الأمارات في مسائل كثيرة من الفقه.

الفتاوى الهندية (3/ 396) الناشر: دار الفكر،بيروت:

ذكر في المبسوط أن القاضي نصب لفصل الخصومات لا لإنشائها وفي الاستحلاف بدون طلب المدعي إنشاء الخصومة وهذا لا يجوز.                        وقد أورد في معين الحكام مسائل عديدة متفرقة في ٲبوابها اتفقت عليها المذاهب الأول قالوا يجوز وطىء الرجل المرأة اذا اهديت إليه ليلة الزفاف وإن لم يشهد عنده عدلان من الرجال أن هذه فلانة بنت فلان التي عقدت عليها وإن لم يستنطق النساء أن هذه امرأته اعتماداً على القرينة الظاهرة المنزلة منزلة الشهادة الثاني أن الناس قديماً وحديثاً لم يزالوا يعتمدون على قول الصبيان والاماء المرسل معهم بالهدايا وأنها مرسلة إليهم فيقبلون أقوالهم ويأكلون الطعام المرسل به.

درر الحكام شرح مجلة الأحكام لعلي حيدر(210/4) الناشر: دار الجيل:

وتوجه السؤال على المدعى عليه مشروط بصحة الدعوى على الوجه المحرر أعلاه أما إذا كانت الدعوى غير صحيحة فلا يتوجه على المدعى عليه جواب ولا يكون المدعى عليه مجبورا على الجواب. فإذا كانت الدعوى صحيحة واستجوب المدعى عليه فإذا أقر فيها. وإذا أنكر تطلب البينة من المدعي انظر المادة (1817) فإذا أثبت المدعي فبها وإلا يحلف المدعى عليه بطلبه؛ لأن اليمين يكلف في جميع الدعاوى بطلب من المدعي.

مجلة الأحكام العدلية (ص: 354) نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي:

لا يحلف اليمين إلا بطلب الخصم ولكن يحلف اليمين من قبل القاضي في أربعة مواضع بلا طلب. الأول: إذا ادعى أحد من التركة حقا وأثبته فيحلفه القاضي على أنه لم يستوف هذا الحق بنفسه ولا بغيره من الميت بوجه ولا أبرأه ولا أحاله على غيره ولا أوفى من طرف أحد وليس للميت في مقابلة هذا الحق رهن , ويقال لهذا يمين الاستظهار , الثاني: إذا استحق أحد المال وأثبت دعواه حلفه القاضي على أنه لم يبع هذا المال ولم يهبه لأحد ولم يخرجه من ملكه بوجه من الوجوه , الثالث: إذا أراد المشتري رد المبيع لعيبه حلفه القاضي على أنه لم يرض بالعيب قولا أو دلالة كتصرفه تصرف الملاك على ما ذكر في المادة (344) , الرابع: تحليف القاضي الشفيع عند الحكم بالشفعة بأنه لم يبطل شفعته يعني لم يسقط حق شفعته بوجه من الوجوه.

درر الحكام شرح مجلة الأحكام لعلي حيدر(498/4) الناشر: دار الجيل:

لا يحلف اليمين إلا بطلب الخصم؛ لأن اليمين حق للخصم حتى أنه لو حلف القاضي الخصم بلا طلب ثم طلب الخصم التحليف فيحلف الخصم ثانيا (عبد الحليم في الدعوى).

 بداية المجتهد ونهاية المقتصد (4/ 253) الناشر: دار الحديث – القاهرة:

ومما اختلفوا فيه من هذا الباب قضاء القاضي بعلمه، وذلك أن العلماء أجمعوا على أن القاضي يقضي بعلمه في التعديل والتجريح، وأنه إذا شهد الشهود بضد علمه لم يقض به، وأنه يقضي بعلمه في إقرار الخصم وإنكاره، إلا مالكا فإنه رأى أن يحضر القاضي شاهدين لإقرار الخصم وإنكاره.

شرح القواعد الفقهية (ص: 95) الناشر: دار القلم – دمشق:

[" القديم يترك على قدمه "] إلا إذا قام الدليل على خلافه، كما في المادة / 1224 / من المجلة.

القديم: هو الذي لا يوجد من يعرف أوله. (ر: المادة / 166 / من المجلة).

ومعنى هذه القاعدة أن المتنازع فيه إذا كان قديما تراعى فيه حالته التي هو عليها من القديم، بلا زيادة ولا نقص ولا تغيير ولا تحويل.

وإنما لم يجز تغيير القديم عن حاله أو رفعه بدون إذن صاحبه لأنه لما كان من الزمن القديم على هذه الحالة المشاهدة فالأصل بقاؤه على ما كان عليه، ولغلبة الظن بأنه ما وضع إلا بوجه شرعي (ر: الفتاوى الخيرية، فصل الحيطان).

فلو كان لأحد جناح في داره ممدود على أرض الغير، أو كان لداره مسيل ماء أو أقذار في أرض الغير، أو كان له ممر إلى داره مثلا في أرض الغير، وكان ذلك الجناح أو المسيل أو الممر قديما لا يعرف أحد من الحاضرين مبدأ لحدوثه، فأراد صاحب الأرض أن يمنع صاحب الدار من مد الجناح أو التسييل أو المرور في أرضه، أو أراد أن يحول المسيل أو الممر ويغيره عن حاله القديم فليس له ذلك إلا بإذن صاحبه .

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

15/صفرالخیر1447ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب