021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
چار ماہ سے زیادہ بیوی سے جدا رہنا
72463معاشرت کے آداب و حقوق کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

میاں کا بیوی سے(چار پانچ ماہ سے) جدا رہنا، تعلقات قائم نہ رکھنا، اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے ؟قرآن و حدیث کی روشنی میں راہنمائی فرماکر ممنون فرمائیں۔جزاکم اللہ خیراً

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چار مہینے سے زیادہ بیوی سے دور رہنا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے ،لہذاشوہر کو چاہئے کہ وہ خاندان اور گھر کا

سربراہ ہونے کا مظاہرہ کرے،لہذا اگر بیوی بچوں میں کوئی خرابی یا کوتاہی ہے تو شفقت پیاراور محبت سے سمجھانے کی کوشش کرے اور ان کے لیے دعا بھی کرے اور حسب ضرورت مناسب تنبیہ بھی کرسکتا ہے، لہذا تنبیہ کایہ طریقہ صحیح نہیں کہ آپس میں ازوادجی تعلق بالکل ختم کردیئے جائیں یا بہت زیادہ سختی کی جائے۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 203)
ولا يبلغ الإيلاء إلا برضاها،
(قوله ولا يبلغ مدة الإيلاء) تقدم عن الفتح التعبير بقوله ويجب أن لا يبلغ إلخ. وظاهره أنه منقول، لكن ذكر قبله في مقدار الدور أنه لا ينبغي أن يطلق له مقدار مدة الإيلاء وهو أربعة أشهر، فهذا بحث منه كما سيذكره الشارح فالظاهر أن ما هنا مبني على هذا البحث تأمل، ثم قوله وهو أربعة يفيد أن المراد إيلاء الحرة، ويؤيد ذلك أن عمر - رضي الله تعالى عنه - لما سمع في الليل امرأة تقول: فوالله لولا الله تخشى عواقبه لزحزح من هذا السرير جوانبه فسأل عنها فإذا زوجها في الجهاد، فسأل بنته حفصة: كم تصبر المرأة عن الرجل: فقالت أربعة أشهر، فأمر أمراء الأجناد أن لا يتخلف المتزوج عن أهله أكثر منها، ولو لم يكن في هذه المدة زيادة مضارة بها لما شرع الله تعالى الفراق بالإيلاء فيها.

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۳۰رجب۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب