021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اقامت جمعہ کے لئے اذن حاکم کی تفصیل
54111 نماز کا بیانجمعہ و عیدین کے مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے علاقے میں عرصہ درازسے نمازجمعہ وعیدین ادء کی جارہی تھی ،اب معتبرعلمائے کرام سے معلوم کرنے کے بعد پتہ چلاکہ وہاں صحت جمعہ کی شرائط نہیں پائی جارہی ۔ ۱۔ اب سوال یہ ہے کہ اگرقاضی سے اقامت جمعہ کی اجازت لی جائے توکیامحض اجازت قاضی سے اقامت جمعہ جائزہوگا؟یاقاضی اس بستی کوشہربنانے کے لئے باقاعدہ عملی اقدام بھی کرے ،کیونکہ اس بارے میں فقہائے آحناف رحمہ اللہ کی عبارتوں میں تعارض معلوم ہوتاہے مثلا "التتارخانیہ" 2/548 : وعن محمد رحمہ اللہ انہ قال کل موضع مصرہ الامام مصرافہومصرجامع ۔ یہاں مصرکاصیغہ مشیرہے کہ اس بستی کوشہرکادرجہ دے اورشہرکادرجہ دینااس وقت ہوگاجب امام وہاں تمام سہولیات مہیاکردے "ردالمحتارعلی الدرالمختار" 2/138: قال ابوالقاسم ھذابلاخلاف اذااذن الوالی اوالقاضی ببناء المسجدالجامعہ واداء الجمعۃ فاذااتصل بہ حکم صارمجمعاعلیہ ،وظاہرمامر عن القہستانی ان مجرد امرالسلطان اوالقاضی ببناء المسجد واداءھافیہ حکم رافع للخلاف بلادعوی وحادثہ۔ یہاں مجردامر کے الفاظ صریح ہیں کہ قاضی کاحکم اقامت جمعہ کے لئے کافی ہے ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگرقریہ کبیرہ ہوتواذن امام جمعہ کے لئے ضروری ہے ،لیکن یہ شرط بھی مقصودبالذات نہیں ،بلکہ ایسےموقع پراس اشتراط کامقصدمسلمانوں کے باہمی معاملات کوسلجھاناہوتاہے عموماان حالات میں لوگوں کی کثرت کی وجہ سے باہم نزاع پیداہونےکاخطرہ ہوتاہے ،اس لئے شریعت نے ایسے موقع پر سلطان یااس کے مقررکردہ شخص کااعتبارکیاہے ،تاکہ کسی کوجھگڑے فساد کاموقع نہ ملے ،اس لئے اگرمسلمانوں کے اتفاق سے کہیں کسی کوخطیب مقررکیاجائے، توسلطان یااس کانائب نہ ہونے کے باجودبھی جمعہ وعیدین کی نمازپڑھناجائزہے ،اسی طرح اگربادشاہ کسی عناد وغیرہ کی وجہ سے اذن نہ دے یاامام غیرمسلم ہوتومسلمان آپس میں اتفاق کرکے کسی ایک کو امام بناکرجمعہ اداء کرلیں توبھی ٹھیک ہے ۔ ایسی جگہ جس کاقریہ کبیرہ ہونا مختلف فیہاہویعنی بعض کے نزدیک وہ قریہ کبیرہ سمجھی جاتی ہواوربعض کے نزدیک قریہ صغیرہ ، تواگرامام جمعہ کاحکم دیدے تووہ ماننالازم ہوگا،کیونکہ مختلف فیہ مسئلہ میں قضاء قاضی رافع للخلاف ہوتاہے ۔ اسی طرح اگر جوجگہ مصریاقریہ کبیرہ نہ ہو،مگردوسرے ائمہ کے ہاں اس میں جمعہ جائزہو توبھی مسئلہ مختلف فیہ ہوگااورحکم حاکم رافع للخلاف ہوگا۔ لیکن اگروہ جگہ بااتفاق ائمہ اربعہ قریہ صغیرہ ہوتواس میں اذن امام سے جمعہ جائزنہیں ہوگا۔ قہستانی کی عبارت مذکورہ (جس کوبطورتعارض ذکرکیاگیاہے )اس کاخلاصہ یہ ہے کہ قری تین قسم کے ہیں ۔ ۱۔ اتنابڑااورایسی وضع وصفت کاگاؤ ں جسے عرف میں شہرکہاجاسکتاہو،یعنی اگرچہ لوگ اسے گاؤں کہتے ہوں ،مگرکوئی شخص اسے شہرکہے تواس کی تکذیب اوراس پرانکارنہ کیاجاتاہو،ایساگاؤں حقیقت میں مصرہے ،لہذااس میں جوازجمعہ اذن حاکم پرموقوف نہیں ،قہستانی کی عبارت میں قصبات پرقری کبیرہ کاعطف تفسیری ہے یااختلاف اسم مع اتحادالمسمی کی بناء پرہے ۔ ۲۔ ایساگاؤ ں کہ اس پرعرفامصرکااطلاق صحیح نہ ہواسے شہرکہنے والے پرانکارکیاجاتاہو،اس میں اذن حاکم سے جمعہ جائزہوگا،بشرطیکہ یہ موضع اقامت جمعہ کے لئے مجتہدفیہ بین الائمہ ہو۔ ۳۔ اتناچھوٹاگاؤں کہ مذاہب اربعہ میں سے کسی مذہب میں بھی وہاں جمعہ جائزنہ ہو،اس میں اذن حاکم سے بھی جمعہ صحیح نہ ہوگا۔وفیماذکرنااشارۃ الی انہ لاتجوزفی الصغیرۃ التی لیس فیہاقاض ومنبروخطیب سے اسی قسم کاگاؤں مرادہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(احسن الفتاوی 4/155) احسن الفتاوی کی مندرجہ بالاتفصیل سے معلوم ہوتاہے کہ شامیہ کی عبار ت جس میں مجردامر کاقول ہے وہ ایسی قریہ سے متعلق ہے جس میں جوازجمعہ کےبارے میں اختلاف رائے ہواوروہ مجتہدفیہ بین الائمہ ہو،تووہاں حکم حاکم رافع للخلاف ہوگا،اورجمعہ جائزہوگا۔ اورتاترخانیہ کی عبارت کامطلب ہےکہ ایسی جگہ جہاں امام شہرکی ضروریات مہیاکردے تووہ شہربن جاتاہے ،جب وہ شہربن گیاتواب اس میں جمعہ جائزہے ،اذن حاکم شرط نہیں ہے ،دوالگ الگ صورتیں اورمحمل ہیں کوئی تعارض نہیں ہے ۔
حوالہ جات
" رد المحتار" 21 / 431: وأما الأمير فمتى صادف فصلا مجتهدا فيه نفذ أمره كما قدمناه عن سير التتارخانية وغيرها فليحفظ . " الهندية" 4 / 300: ولو تعذر الاستئذان من الإمام فاجتمع الناس على رجل يصلي بهم الجمعة جاز ، كذا في التهذيب "الھدایۃ"1 / :151 ولایجوز اقامتھاالاللسلطان اولمن امرہ للسلطان لانھاتقام بجمع عظیم وقدتقع المنازعۃ فی التقدیم والتقد م ۔ " رد المحتار" 2 / 144: فلوالولاۃ کفارایجوزللمسلمین اقامۃ الجمعۃ ،ویصیر القاضی قاضیابتراضی المسلمین ،ویجب علیہم ان یلتمسواوالیامسلما۔ "رد المحتار" 6 / 41: ( ويشترط لصحتها ) سبعة أشياء : الأول : ( المصر وهو ما لا يسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها ) وعليه فتوى أكثر الفقهاء. مجتبى لظهور التواني في الأحكام وظاهر المذهب أنه كل موضع له أمير وقاض يقدر على إقامة الحدود كما حررناه فيما علقناه على الملتقى . وفي القهستاني : إذن الحاكم ببناء الجامع في الرستاق إذن بالجمعة اتفاقا على ما قاله السرخسي وإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه فليحفظ۔ "رد المحتار" 6 / 44: وعبارة القهستاني تقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق قال أبو القاسم : هذا بلا خلاف إذا أذن الوالي أو القاضي ببناء المسجد الجامع وأداء الجمعة لأن هذا مجتهد فيه فإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه ، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب كما في المضمرات والظاهر أنه أريد به الكراهة لكراهة النفل بالجماعة ؛ ألا ترى أن في الجواهر لو صلوا في القرى لزمهم أداء الظهر ، وهذا إذا لم يتصل به حكم ، فإن في فتاوى الديناري إذا بني مسجد في الرستاق بأمر الإمام فهو أمر بالجمعة اتفاقا على ما قال السرخسي ا هـ فافهم والرستاق القرى كما في القاموس ۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / مفتی محمد صاحب