021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
خریدار کے قبضہ سے پہلے مبیع کاحکم
60280خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

20جون کو ایک ڈیل چائنا کے ایک پاکستانی ڈیلر کے ساتھ طے پائی۔ڈیل میں اشیاء کی ایک لسٹ ڈیلر کے حوالے کی گئی،ریٹ طے ہوئے اور اس سے ڈلیوری کا وقت طے کیا گیا ۔ڈیلیوری کی تاریخ 28 جون طے ہوئی۔25 جون کو ڈیلر نے فون کیا اور بتایا کہ آپ کا مال آچکا ہے ،دیکھ لیں اور لے جائیں۔26 جون کو ہم گئے مال دیکھا ، ڈیل پکی کی،40 ٪ پیمنٹ کی اور یہ کہ کر واپس آگئے کہ مال ہم 27 تاریخ کو اٹھا لیں گےاور بقیہ قیمت اسی وقت دے دیں گے۔27 جون کو کسی وجہ سے ہم مال نہ اٹھا سکے۔28 جون کو جب گئے تو ڈیلر کہتا ہے کہ گذشتہ رات ڈکیتی ہوئی ہے اور آپ کا مال بھی اس میں چلا گیا ہے۔ہماری سمجھ سے باہر ہے کہ ڈکیت اتنا سارا مال کیسے اٹھا کرلے گئے؟ خیر۔۔۔ !اب ڈیلر یہ کہتا ہے کہ پیمنٹ پوری کرو کیوں کہ آپ کا مال چوری ہوا ہے نہ کہ میرا۔ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ مال ہمارے حوالے ہوا نہیں تھا اس لیے آپ ذمہ دار ہو ۔وہ کہتا ہے کہ اگر آپ گذشتہ کل آتے اور میں نہ دیتا تو میں ذمہ دار ہوتا تاخیر آپ نے کی ہے اس لیے آپ ذمہ دار ہو۔از راہِ کرم ایسی وضاحت سے شرعی حکم بتائیں جو دونوں پارٹیوں کے لیے اطمینان کا سبب ہو ۔جزاک اللہ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں مذکور تفصیل اور سائل سے کی گئی تحقیق سے معلوم ہوا کہ آپ نے مال اس لیے نہیں اٹھایا تھا کہ آپ کے پاس اس مال کو رکھنے کی کوئی جگہ نہیں تھی لہٰذا معلوم ہوا کہ آپ نے تخلیہ حاصل نہیں کیا تھا(یعنی آپ کا قبضہ متحقق نہیں ہوا تھا)،اس تفصیل کی روشنی میں معلوم ہوا کہ26 جون کو عقد بیع ہو چکا تھا،مگر مال ابھی بائع کے قبضہ میں تھا اور حادثہ پیش آنے تک بھی بائع کے قبضہ میں رہا۔لہٰذا فروخت کنندہ یعنی ڈیلر ہی ضامن ہوگا اور 40٪ پیمنٹ جو اس کے قبضہ میں ہے وہ بھی آپ کو واپس کرے گا۔اس لیے کہ مبیع جب تک فروخت کنندہ کے قبضہ میں ہو وہ اسی کے ضمان میں ہوتی ہے۔لہٰذا شرعاً آپ کو حق حاصل ہے کہ آپ کسی بھی مناسب طریقے سے اپنی ادا کی ہوئی رقم واپس لے سکتے ہیں۔
حوالہ جات
المعیار الشرعی رقم (18) القبض 3/1 الاصل فی تحدید کیفیۃ قبض الاشیاء العرف ولھذا اختلف القبض فی الاشیاء بحسب اختلافھا فی نفسھا وبحسب اختلاف اعراف الناس فیھا۔ 3/3 یتحقق القبض الحقیقی فی المنقول بالتسلم الحسی ۔ویتم القبض الحکمی فی المنقول المعین والمنقول الموصوف فی الذمۃ بعد تعیینہ باحدی الطرق المتعارف علیھا للتعیین بالتخلیۃ بینہ وبین المستحق علی وجہ یتمکن بہ من تسلمہ من غیر مانع ولو لم یحصل النقل والتحویل سواء اکان مما یتناول بالید عادۃ ام کان مما یشترط فیہ التوفیہ (الافراز) باحدی الواحدات القیاسیۃ العرفیۃ : الکیل او الوزن او الذرع او العد ونحوھا ام کان من السلع التی لا یعتبر فیھا شیء من ذالک لعدم امکانہ او مع امکانہ لکنہ لم یراع فیھا التقدیر مثل بیع الجذاف۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 560) وفي الفتح والدر المنتقى: لو هلك المبيع بفعل البائع أو بفعل المبيع أو بأمر سماوي، بطل البيع ويرجع بالثمن لو مقبوضا وإن هلك بفعل المشتري، فعليه ثمنه إن كان البيع مطلقا أو بشرط الخيار له، وإن كان الخيار للبائع أو كان البيع فاسدا لزمه ضمان مثله إن كان مثليا وقيمته إن كان قيميا، وإن هلك بفعل أجنبي فالمشتري بالخيار إن شاء فسخ البيع فيضمن الجاني للبائع ذلك، وإن شاء أمضاه ودفع الثمن واتبع الجاني، ويطيب له الفضل إن كان الضمان من خلاف الثمن وإلا فلا. اللباب في شرح الكتاب (2/ 12) ثم التسليم يكون بالتخلية على وجه يتمكن من القبض بلا مانع ولا حائل لأن التخلية قبض حكما لو مع القدرة عليه بلا كلفة، وتمامه في حاشية شيخنا.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب