03182754103,03182754104

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اولاد کی شادی بہترہے یا نفلی عمرہ ؟
57444جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

ہم سات بھائی ہیں جن میں سے چار شادی شدہ ہیں اورتین غیر شادی شدہ ،میرے دو شادی شدہ بھائی اورایک غیر شادی شدہ بھائی سعودی عرب میں روزگار کے سلسلہ میں رہتے ہیں ،میرے والدین ہرسال تین ،چارمہینوں کے لیے ان کے پاس رہنے جاتے ہیں ،اوراس دوران کم ازکم دومرتبہ عمرہ کے لیے جاتے ہیں ،میرے تین غیر شادی شدہ بھائیوں کی عمربالترتیب32سال اوردوجڑوں کی عمر28سال ہے، اب ایک مرتبہ پھر مارچ میں والدین کا تین چار ماہ کے لیے سعودیہ جانے کاارادہ ہے،میرا کہنا یہ ہے کہ آپ کے وہاں عمرہ پر جانے سے زیادہ ضروری بھائیوں کی شادی کرنا ہے ،پہلے آپ بھائیوں کی شادی کردیں پھر وہاں جائیں ،شادی پاکستان میں کرنی ہے ،میری والدہ کاکہناہے کہ تم تحریری فتوی لاؤ،آپ اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں کہ میرے والدجو 4 بارحج اوروالدہ جوایک بار حج پر جاچکی ہیں ان کے حق میں نفلی عمرہ بہترہے یا بچوں کی شادی کرنا؟بینوا توجروا

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جب آپ کے والدین اللہ کے فضل وکرم سے فرض حج اورمتعدد عمرے کرچکے ہیں تو ان کے لیے اب زیادہ بہتریہ ہے کہ نفلی عمرہ کے بجائے اپنے بالغ اولاد کی شادی کا بندوبست کریں ،کیونکہ والدین کے ذمہ لازم ہے وہ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کریں اور انہیں اپنی زندگی دین کے مطابق گزارنے کی ترغیب دیں اور بچوں کے بالغ ہوجانے کے بعد جیسے ہی ممکن ہو مناسب رشتہ نظر آتے ہی ان کی شادی کرادیں۔ کنز العمال میں حدیث مبارک ہے: "حق الولد علی والدہ أن یحسن اسمہ ویزوجہ اذا أدرک ویعلمہ الکتاب"”باپ پر بچے کا یہ حق ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے اور بالغ ہونے کے بعد اس کی شادی کرائے اور اسے قرآن کا علم سکھائے۔“(کنز العمال ۱۶/۴۱۷) بالغ ہونے کےبعد اولادی کی شادی نہ کرنے سے گناہ والدین کوبھی ہوگا: ”عن أبی سعید وابن عباس رضی الله عنھما قالا: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: من ولد لہ ولد فلیحسن اسمہ وأدبہ، فاذا بلغ فلیزوجہ، فان بلغ ولم یزوجہ فأصاب اثمًا فانما اثمہ علٰی أبیہ۔“(مشکوٰة ص:۲۷۱) ترجمہ:… ”حضرت ابوسعید اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: جب اولاد بالغ ہوجائے اور والدین ان کے نکاح سے آنکھیں بند کئے رکھیں، اس صورت میں اگر اولاد کسی غلطی کی مرتکب ہو تو والدین بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہوں گے۔“ لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ والد کی ذمہ داری فقط اتنی ہے جو اوپر ذکر کی گئی اس سے آگے(ولیمے کا خرچہ، مہر، نفقہ وغیرہ غرض) ہر قسم کا مالی خرچ لڑکے کے اپنے اوپر ہےیہ باپ کی ذمہ داری نہیں کہ لڑکے کی شادی میں اپنے پیسے خرچ کرے بالغ ہو جانے کے بعد یہ تمام ذمہ داریاں لڑکے کے اپنے اوپر عائد ہوتی ہیں کہ کمائے اور اپنی شادی کیلئے پیسوں کا بندوبست کرے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو یہ لڑکے کی ذمہ داری ہے کہ اتنا قرض کہیں سے حاصل کرے کہ اس کی شادی میں مہر اور دیگر شرعی امور انجا م پاسکیں نیز لڑکے کو ایسی ملازمت وغیرہ بھی اختیار کرنا ضروری ہے جس سے اس کے گھر کا نفقہ وغیرہ چل سکے۔ اگر لڑکا یہ تمام مذکورہ بالا وسائل مہیا کرلیتا ہے اور مالی اعتبار سے کوئی مانع باقی نہ رہے نیز باپ کو اچھا رشتہ بھی نظر آجائے لیکن اب اگر باپ تاخیر کرے اور لڑکا بلوغت سے کہولت (ادھیڑعمری) کی عمر کی طرف منتقل ہونے لگے تو اب لڑکے سے سرزد گناہ کاباپ بھی ذمہ دار ہوگا۔ باپ کی یہ ذمہ داری تھی کہ جب لڑکا مالی اعتبار سے بےغم ہے تو بلوغت کے بعد جلد از جلد اس کی شادی کردے اور اس فرض سے سبکدوش ہوجائے۔ یہ ایک وبا ہے جو ہمارے معاشرے میں پھیلتی جارہی ہے کہ والدین اپنی اغراض کی وجہ سے اولاد کے نکاح میں تاخیر کرتے جاتے ہیں اور اولاد ناجائز ذرائع استعمال کرنے لگتی ہے ایسے والدین کو متنبہ ہونا چاہیئے کہ کل بروزِ قیامت اولاد کے گناہوں کا سوال ان سے بھی ہوگا۔البتہ اگر لڑکے کے پاس پیسے نہ ہوں اور نہ وہ قرض لے سکتا ہو تو اسے چاہیئے کہ روزے رکھے اور روزوں کے ذریعے اپنی شہوت کو مٹائے آپ ﷺ کا ارشاد ہے: "من استطاع منكم الباءة فليتزوج فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإنه له وجاء " ’’جو تم میں سے نکاح (اور اس کے حقوق اداء کرنے کی) طاقت رکھتا ہو تو اسے چاہیئے کہ شادی کرے کیونکہ اس سے نظر کی حفاظت اور شرمگاہ کے لئے عفت کا حصول ہوتا ہے اور جو طاقت نہ رکھتا ہو تو اسے روزے رکھنے چاہئیں کیونکہ روزے ہی اس کے لئے شہوت کو توڑنے والی چیز ہیں۔‘‘(مشکوۃ ص:۲۶۷) لہٰذا گھریلو حالات اگر شادی کی اجازت نہ دیتے ہوں تو باپ کو چاہیئے کہ بیٹے کو بتا دے کہ شریعت میں آپ کے مسئلے کا یہ حل ہے کہ آپ روزے رکھیں نیز اگر والد کے پاس مال وافر مقدار میں موجود ہے اور لڑکا فی الحال شادی سےقبل اتنا مال حاصل کرنے پر قدرت نہ رکھتا ہو، اور باپ اپنی خوشی سے (بغیر کسی ادھار کا بوجھ اٹھائے) خرچ کردیتا ہے تو امید ہے کہ عند اللہ ماجور ہوگااوریہ اس کے لیے نفلی عمرہ سے بہترہوگا لیکن باپ کا یہ خرچ کرنا تبرعا ہوگا نہ یہ کہ اسے والد کی ذمہ داری سمجھا جائے۔
حوالہ جات
فی الدر المختار(۴۶۲/۲): وفي الأشباه معه ألف وخاف العزوبة إن كان قبل خروج أهل بلده فله التزوج ولو وقته لزمه الحج۔وفی الرد تحتہ: قوله ( وفي الأشباه ) المسألة منقولة عن أبي حنيفة في تقديم الحج على التزوج والتفصيل المذكور ذكره صاحب الهداية في التجنيس وذكرها في الهداية مطلقة واستشهد بها على أن الحج على الفور عنده ومقتضاه تقديم الحج على التزوج وإن كان واجبا عند التوقان وهو صريح ما في العناية مع أنه حينئذ من الحوائج الأصلية ولذا اعترضه ابن كمال باشا في شرحه على الهداية بأنه حال التوقان مقدم على الحج اتفاقا لأن في تركه أمرين ترك الفرض والوقوع في الزنا وجواب أبي حنيفة في غير حال التوقان اھ أي في غير حال تحققه الزنا لأنه لو تحققه فرض التزوج أما لو خافه فالتزوج واجب لا فرض فيقدم الحج الفرض عليه فافهم۔وفی الفقہ الاسلامی وادلتہ (۲۰۹۱/۳):وإن احتاج إلى الزواج وخاف على نفسه العنت (الإثم والأمر الشاق) قدم التزويج، لأنه واجب عليه ولا غنى به عنه، فهو كنفقته، وإن لم يخف قدم الحج؛ لأن الزواج تطوع، فلا يقدم على الحج الواجب۔(۷۱۳) وفی الھندیۃ (۲۱۷/۱): اذا وجدما یحج بہ وقد قصد التزوج یحج بہ ولا یتزوج لان الحج فریضۃ او جبھا اﷲ تعالیٰ علی عبدہ.(قال الراقم علم من قولہ الحج فریضۃ ان فی غیر الفریضۃ والعمرۃ الاولی التزوج واللہ اعلم)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب