021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شرکت میں شرکاء کا سرمایہ شامل ہونا ضروری ہے
57645شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علماءکرام اس مسئلہ میں کہ : زید کی ایک ذاتی دکان ہے، مگر وہ بذات خود اس میں کام/ کاروبار نہیں کرنا چاہتا، بلکہ چاہتا ہے کہ عمرو اس کی دکان میں اس طور پر کاروبار کرے کہ مال تجارت عمرو کی طرف سے ہو، زید کی دکان ہو اور نفع جو حاصل ہو دونوں میں مشترک ہو جبکہ عمرو اس پر راضی ہو آیا شریعت کی رو سے یہ جائز نہیں؟ اگر نہیں تو جواز کی کونسی صورتیں ممکن ہیں۔ واضح رہے کہ زید مصروفیت کی بنا پر دکان میں (بوقت کاروبار) نہیں بیٹھنا چاہتا اور نہ ہی عمرو کو اس کی مدد کی ضرورت ہے۔یہ بھی واضح رہے کہ زید عمرو سے دکان کا کرایہ( جو کہ تقریباً 20000) بنتا ہے، نہیں لینا چاہتا ہے۔ مفصل جواب دے کر ممنون فرمائیں۔ جزاکم اللہ تعالی خیرا o

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں احناف کے عام اصول کے مطابق زید اور عمرو کے درمیان شرکت نہیں ہوسکتی۔ اس لیے کہ زید کی طرف سے کاروبار میں سرمایہ نہیں لگایا گیا ہے جبکہ کاروبار میں شرکت کےلیے ضروری ہے کہ ہر شریک کی طرف سے کاروبار میں سرمایہ لگایا گیا ہو۔ اگر زید عمرو کے ساتھ کاروبار میں شریک ہونا چاہتا ہے تو زید کے لیے لازم ہے کہ کاروبار میں اپنی طرف سے سرمایہ لگائے اگرچہ وہ سرمایہ زیادہ نہ ہواور شرکت کے معاہدہ میں اپنے آپ کو عامل شریک لکھے اگرچہ وہ کاروبار میں عملی طور پر شریک نہ ہو اور نفع کا تناسب طے کرتے وقت اپنا حصہ زیادہ رکھے۔ اس لیے کہ اس کی طرف سے دکان بھی ہے جس کا کرایہ وہ نہیں لے رہا ہے۔
حوالہ جات
"وشرعا (عبارة عن عقد بين المتشاركين في الأصل والربح) جوهرة." (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)4/299 ط:دار الفکر) "أما الأول: فشركة العقود أنواع ثلاثة: شركة بالأموال، وشركة بالأعمال، وتسمى شركة الأبدان وشركة الصانع، وشركة بالتقبل، وشركة بالوجوه (أما) الأول: وهو الشركة بالأموال: فهو أن يشترك اثنان في رأس مال، فيقولان اشتركنا فيه، على أن نشتري ونبيع معا، أو شتى، أو أطلقا على أن ما رزق الله عز وجل من ربح، فهو بيننا على شرط كذا، أو يقول أحدهما: ذلك، ويقول الآخر: نعم." (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع6/56 ط:دار الکتب العلمیۃ) " (و) لذا (تصح) عاما وخاصا ومطلقا ومؤقتا و (مع التفاضل في المال دون الربح وعكسه، وببعض المال دون بعض،" (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)4/311 ط:دار الکتب العلمیۃ) "المادة (1372) إذا كان رأس مال الشريكين متفاضلا كأن كان رأس مال أحدهما مائة ألف درهم ورأس مال الآخر مائة وخمسين ألف درهم فإذا شرط تقسيم الربح بينهما بالتساوي فيكون بمعنى أنه شرط زيادة حصة في الربح للشريك صاحب رأس المال القليل بالنسبة إلى رأس ماله ويكون ذلك كشرط ربح زائد لأحد الشريكين حال كون رأس مالهما متساويا , فلذلك إذا عمل شرط كليهما أو شرط عمل الشريك صاحب الحصة الزائدة في الربح أي صاحب رأس المال القليل صحت الشركة واعتبر الشرط , وإذا شرط العمل على صاحب الحصة القليلة من الربح أي صاحب رأس المال الكثير فهو غير جائز ويقسم الربح بينهما بنسبة مقدار رأس مالهما." (مجلة الأحكام العدلية (ص: 264)نور محمد) "وحاصل ذلك كله أنه إذا تفاضلا في الربح، فإن شرطا العمل عليهما سوية جاز: ولو تبرع أحدهما بالعمل وكذا لو شرطا العمل على أحدهما وكان الربح للعامل بقدر رأس ماله أو أكثر ولو كان الأكثر لغير العامل أو لأقلهما عملا لا يصح وله ربح ماله فقط،" (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)4/312 ط:دار الفکر بیروت) دوسری صورت یہ ہے کہ زید اپنی طرف سے شرکت کے کاروبار میں اپنی دکان کو کاروباری اثاثہ کی حیثیت سے شامل کرےاور شرکت کے عقد کے وقت دکا ن کی بازاری قیمت کو شرکت کا راس المال بنالے تو زید اور عمرو کے درمیان شرکت ہوجائے گی۔ "الاصل ان یكون راس مال الشركة موجودات نقدیة یمكن بها تحدید مقدار راس المال لتقریر نتیجة المشاركة من ربح او خسارة ومع ذلك یجوز باتفاق الشركاء الاسهام بموجودات غیر نقدیة (عروض ) بعد تقویمها بالنقد لمعرفۃ مقدار حصة الشریك" (المعاییر الشرعیۃص 207 ) (و) تصح (بعين) من جانب (وبعرض) من الآخر (وبعرضين) من كل جانب عرض (مطلقا) اتفقا جنسا أو اختلفا كعبد وحمار أو ثوب. ودخل فيه طعام من جهة وعرض من أخرى. (واعتبر كل) من العرضين أو العرض مع العين (بالقيمة يوم العقد) كالشركة في العين مع العرض بالعين وقيمة العرض، فإن كانت قيمته قدر العين فالشركة بالنصف وإن كانت قدرها مرتين فبالثلث والثلثين، وفي العرضين بقيمة كل فإن تساويا فبالنصف وإن تفاوتا فبحسب كل" (حاشية الصاوي على الشرح الصغير بلغة السالك لأقرب المسالك3/459ط: دار المعارف)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / فیصل احمد صاحب