021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بہنوں کامیراث کاحصہ ایک دفعہ معاف کرنے بعد دوبارہ مطالبہ کرنا
57637.1میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ایک انسان ہے اوروہ اپنی بہنوں کاحصہ (زمینی وراثتی حصہ)اپنے نام کرواتاہے اوربہن خوشی سے اپنے بھائیوں کواپنی وراثت دے دیں،لیکن بھائیوں نے کاغذات پرسب بہنوں کے نام پر4 لاکھ روپے لکھوائے ہوں،اوربہنوں کواس بات کاعلم نہ ہوتوبہنوں کوجب اس بات کاعلم ہوجائے توکیاوہ دوبارہ اپناحصہ اپنے بھائیوں سے طلب کرسکتی ہیں؟ اوروہ چارچارلاکھ روپے جوبھائیوں نے زمینی کاغذات پرلکھوائے تھےوہ لے سکتی ہیں؟ o

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں بہنیں دوبارہ اپنے حصے کامطالبہ کرسکتی ہیں،کیونکہ بہنوں کی طرف سے زمین کے حصے کی معافی شرعا معتبر نہیں،البتہ اگرزمین،جائیداد،نقدی اورتمام سامان میں سے ہرایک بہن کاحصہ الگ الگ کرکے بہنوں کے حوالے کیاجائے اورپھربہنیں اپنی خوشی اوررضامندی سے اپناحصہ بھائیوں کودیدیں،توپھریہ معافی معتبر ہوگی،اوراس طرح معاف کرنے کے بعد بہنیں دوبارہ اپنے حصے کامطالبہ نہیں کرسکیں گی۔ صورت مسئولہ میں چونکہ پہلے اس طریقے سے تقسیم نہیں کیاگیااوربھائیوں کی غلط بیانی سے بھی معلوم ہوتاہے کہ یہ معافی بہنوں کی خوش دلی وطیب خاطر سے نہیں ہوئی،اس لئے بعد میں بہنوں کامطالبہ بھی درست ہے،اب بھائیوں پرلازم ہوگاکہ یاتوجائیداداورمیراث میں بہنوں کاجوحصہ ہے،ان کے مطالبے پروہ ان کودیدیں یابہنوں کی رضامندی سے کاغذات میں جتنی رقم بہنوں کودینے کالکھاگیاہے،اتنی رقم بہنوں کےحوالے کریں،ورنہ شرعاگناہگارہوں گےاورجب تک یہ مال استعمال کریں گے حرام کھانے کاگناہ ہوگااوراس کی وجہ سے کوئی عبادت بھی قبول نہ ہوگی۔ بہنوں کومیراث سے محروم کرنابہت بڑاگناہ ہے،قرآن وحدیث میں اس پربہت سخت وعیدیں آئی ہیں،قرآن مجید میں ہے کہ جواللہ تعالی اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرے گااورمیراث کوشرعی طریقے کے مطابق تقسیم نہیں کرے گاتواللہ تعالی اس کوجہنم میں داخل فرمائیں گےاوروہ اس میں ہمیشہ رہےگا اوراس کے لئے درد ناک عذاب ہوگا۔
حوالہ جات
{ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ } { وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَاراً خَالِداً فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ } "تفسير ابن كثير"2 / 232: أي: هذه الفرائض والمقادير التي جعلها الله للورثة بحسب قربهم من الميت واحتياجهم إليه وفقدهم له عند عدمه، هي حدود الله فلا تعتدوها ولا تجاوزوها؛ ولهذا قال: { ومن يطع الله ورسوله } أي: فيها، فلم يزد بعض الورثة ولم ينقص بعضا بحيلة ووسيلة، بل تركهم على حكم الله وفريضته وقسمته { يدخله جنات تجري من تحتها الأنهار خالدين فيها وذلك الفوز العظيم ومن يعص الله ورسوله ويتعد حدوده يدخله نارا خالدا فيها وله عذاب مهين } أي، لكونه غير ما حكم الله به وضاد الله في حكمه. وهذا إنما يصدر عن عدم الرضا بما قسم الله وحكم به، ولهذا يجازيه بالإهانة في العذاب الأليم المقيم۔ "الجامع لأحكام القرآن للقرطبي"5 / 55: قوله تعالى { ومن يعص الله ورسوله } يريد في قسمة المواريث فلم يقسمها ولم يعمل بها { ويتعد حدوده } أي يخالف أمره { يدخله نارا خالدا فيها ۔ "مشكاة المصابيح " 2 / 197: وعن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة " . رواه ابن ماجه۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب