03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پلاٹ کی خریدوفروخت کی ایک صورت کاحکم
57960خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

بارہ رکنی کمیٹی ممبران 8ایکڑ27گھنٹہ زمین خریدکراس میں 181پلاٹ بنائےاوراسے آگےفروخت کیاان شرائط کے ساتھ کہ پلاٹ پربجلی،گیس،روڈ،لیزالائمنٹ اورلےآؤٹ پلان کاجوخرچہ آئےگاوہ ہرپلاٹ والاخودبرداشت کرےگا،تقریباسوسائٹیوں میں مینٹیننس کےچارچز پلاٹ کےمالکان سے الگ الگ لیاجاتاہے۔ اب سوال یہ ہےکہ بارہ رکنی کمیٹی ممبران جوکہ زمین کے مالک ہیں اورہرطرح کے نقصان کی صورت میں فروخت شدہ زمین کے ضامن ہیں کیاکمیٹی کے ممبران کواس میں منافع رکھناجائزہے؟مثال کے طورپرلیزیعنی کاغذات بنوانےپرفی پلاٹ50000ہزارروپے کاخرچہ آتاہے توکیامالکان کمیٹی اس پرکچھ منافع مثلا70000پلاٹ کے مالکان سے وصول کرسکتےہیں؟کمیٹی ممبران کاکہناہےکہ ہم نےپلاٹ بہت سستے بیچے ہیں اورہرطرح کےنقصان کی ضمانت بھی لی ہے،نیزبیچتے وقت فارم پرشرائط واضح لکھ دی گئیں تھیں کہ ترقیاتی اخراجات،پلاٹ کی قیمت کے علاوہ ہرایک پردینالازم ہے۔ عرف عام میں عموماسوسائیٹیوں کے مالکان ترقیاتی اخراجات کی مدمیں بھی منافع کماتےہیں،مثال کے طورپربجلی لگانےپرجوخرچہ آتاہے مالکان اس سےزیادہ وصول کرتے ہیں اورکہتےہیں کہ ہم نےکروڑوں روپےاس لئے توبندکئےہیں کہ ہم کماسکیں اورعرف عام میں خریدگنندگان دیتےہیں اس لئے کہ اس سے پلاٹ کی قیمت ڈبل کے قریب پہنچتی ہے۔ کمیٹی ممبران جن کوپلاٹ فروخت کئے ہیں توان شرائط کوتسلیم کرکے اوردستخط کرنےکےبعدپلاٹ فروخت کیاہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ صورت میں بائع (فروخت کنندگان) اورمشتری (پلاٹ کے خریداروں) کے درمیان ایک عقدخریدوفروخت کا اوردوسراعقدمذکورہ بالاسروسز کے فراہم کرنے پروکالہ بالاجرة کاہے۔ پہلےعقد کاحکم یہ ہے کہ اگرپلاٹ کوبیجتے وقت خریدارکے سامنے پوری وضاحت کردی جائےکہ یہ قیمت صرف خالی پلاٹ کی ہے ،باقی پلاٹ کوقابل رہائش اورقابل استعمال بنانے کی تمام چیزیں اس میں داخل نہیں تویہ صورت جائزہے ،اوراگرعقدکرتےوقت ان چیزوں کاصراحت کے ساتھ ذکرنہ ہواورعرف مذکورہ سہولیات کوپلاٹ میں شامل کرکے بیچنے اورنہ بیچنے دونوں طرح کارائج ہوتویہ صورت فاسدہے،کیونکہ اس صورت میں مبیع(فروخت کی ہوئی چیز) میں ابہام ہے،اس کی واضح طورپرتعیین نہیں ہوئی جوکہ بیع کے عقدکے صحیح ہونے کے لئے ضروری ہے۔ دوسرے عقدکاحکم یہ ہے کہ اس میں فروخت کرنے والے، پلاٹ کے خریداروں کو سروسزفراہم کرنے کےوکیل ہیں ،اس وکالت پران کے لئے اجرت لیناجائزہے،تاہم شرعاضروری ہےکہ یہ اجرت پہلے سے طےہویااس طرح معروف ہوکہ بعدمیں کسی قسم کے نزاع کااندیشہ نہ ہو،ایسی صورت میں اگریہ اجرت پہلے سے واضح طورپرطے نہ ہوبلڈرزمعروف اجرت یااس پرمناسب ومعقول حدتک اضافہ کرکےاجرت لے سکتے ہیں،تاہم خریداروں کومطلع کئے بغیرمعروف مقدارسے زیادہ اجرت لیناجائزنہیں۔ اوراگراجرت عقدکرتے وقت واضح طورپرطے نہ ہواورنہ ہی معروف ہوتویہ صورت فاسدہے اوراس صورت میں مذکورہ سروسزفراہم کرنے والے اتنی اجرت کے مستحق ہیں جومارکیٹ میں رائج ہے۔
حوالہ جات
رد المحتار (ج 6 / ص 330): "قال في البزازية: إجارة السمسار والمنادي والحمامي والصكاك وما لا يقدر فيه الوقت ولا العمل تجوز لما كان للناس به حاجة، ويطيب الاجر المأخوذ لو قدر أجر المثل." رد المحتار (ج 6 / ص 348): "مطلب في أجرة الدلال تتمة: قال في التاترخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به، وإن كان في الاصل فاسدا لكثرة التعامل، وكثير من هذا غير جائز فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب