021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
گزشتہ سالوں کی زکوة اداکرنے کاطریقہ
60406زکوة کابیانمستحقین زکوة کا بیان

سوال

ایک شخص کی 1992 میں شادی ہوئی ہواوراس پرزکوة فرض ہو،لیکن اب تک بعض سالوں کی زکوة اداکی اوربعض کی نہیں ،نیزاس کے پاس کچھ زیورات بھی تھے اوراب اس کاکچھ حصہ باقی ہے،جب زکوة فرض ہوئی تھی اس وقت زیورات کی قیمت بہت فرق تھاآج کل کے مقابلے میں،پوچھنایہ ہے کہ ان گذشتہ سالوں کی زکوة اداکرنے کاکیاطریقہ ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زکوة کاحساب کرنے کے لئے قمری تاریخ کامتعین کرناضروری ہے،قمری اعتبارسے جس تاریخ کومذکورہ شخص صاحب نصاب بناہےاگلے سال جب وہی قمری تاریخ آئے گی اس تاریخ کوتمام اموال زکوة کاحساب کرکے زکوة اداکرناواجب ہوگا،اس تاریخ میں اس شخص کے پاس سونا،چاندی ،مال تجارت اورنقدی میں سے جوکچھ ہوگاخواہ وہ ایک روز قبل ہی کیوں نہ ملاہوان سب کے مجموعہ کی قیمت لگاکرزکوة اداکرناضروری ہے،اگرقمری تاریخ یادنہ ہوتوغوروفکرکرکے جس تاریخ کاظن غالب ہووہ طے کرلی جائے،اگرکسی تاریخ کاظن غالب نہ ہوتواندازے سےایک قمری تاریخ متعین کرلی جائے،اس وقت سے لے کراب تک جتنے سالوں کی زکوة ادا نہیں کی اس کادرج ذیل طریقہ کے مطابق حساب کرکے زکوة نکالناضروری ہے: گزشتہ سالوں کی زکوة نکالنے کاطریقہ یہ ہے کہ جس تاریخ کومذکورہ شخص صاحب نصاب بناہےآئندہ سال اسی قمری تاریخ کواپنےاموال زکوة کی موجودہ قیمت لگاکراس کااڑھائی فیصد بطورزکوة الگ کرلے ،آئندہ سال پھراسی تاریخ کواموال زکوة کی قیمت لگائی جائے،لیکن اس میں گذشتہ سال کی الگ کی ہوئی زکوة کی رقم شامل نہ کی جائے،اگریہ قیمت بقدرنصاب ہے تواس کااڑھائی فیصدبطورزکوة کے الگ کرلیاجائے،اسی طرح ہرسال کاحساب ہوگا،یعنی ہرآنے والےسال میں گذشتہ سال کی مقدارزکوة کوشامل نہیں کریں گے،بلکہ اسے منہاکرکےباقی اموال زکوة کودیکھاجائے گا اگربقدرنصاب ہے توزکوة ہے ،ورنہ نہیں،اسی طرح اگرمذکورہ شخص پرقرض ہے توزکوة کا حساب کرتے وقت اسے بھی منہاکیاجائےگا ۔
حوالہ جات
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع للكاساني (ج 2 / ص 59): وأما صفة الواجب في أموال التجارة فالواجب فيها ربع عشر العين وهو النصاب في قول أصحابنا،وقال بعض مشايخنا: هذا قول أبى يوسف ومحمد وأما على قول أبى حنيفة فالواجب فيها أحد شيئين: اما العين أو القيمة فالمالك بالخيار عند حولان الحول إن شاء أخرج ربع عشر العين وان شاء أخرج ربع عشرالقيمة ،وبنوا على بعض مسائل الجامع فيمن كانت له مائتا قفيز حنطةللتجارة قيمتها مائتا درهم فحال عليها الحول فلم يؤد زكاتها حتى تغير سعرها إلى النقصان حتى صارت قيمتها مائة درهم أو إلى الزيادة حتى صارت قيمتها أربعمائة درهم ان على قول أبى حنيفة: ان أدى من عينها يؤدى خمسة أقفزة في الزيادة والنقصان جميعا ،لانه تبين أنه الواجب من الاصل فان أدى القيمة يؤدى خمسة دراهم في الزيادة والنقصان جميع؛ا لانه تبين انها هي الواجبة يوم الحول، وعند أبى يوسف ومحمد ان أدى من عينها يؤدى خمسة أقفزة في الزيادة والنقصان جميعا كما قال أبو حنيفة وان أدى من القيمة يؤدى في النقصان درهمين ونصفا وفى الزيادة عشرة دراهم ؛لان الواجب الاصلى عندهما هو ربع عشر العين وانما له ولاية النقل إلى القيمة يوم الاداء فيعتبر قيمتها يوم الاداء،والصحيح ان هذا مذهب جميع أصحابنا ؛لان المذهب عندهم أنه إذا هلك النصاب بعد الحول تسقط الزكاة سواء كان من السوائم أو من أموال التجارة ولو كان الواجب أحدهما غير عين عند أبى حنيفة لتعينت القيمة عند هلاك العين على ما هو الاصل في التخيير بين شيئين إذاهلك أحدهما انه يتعين الآخر
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب