021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
چالیس سال کے بعد سیاہ خضاب لگانا
60385جائز و ناجائزامور کا بیانلباس اور زیب و زینت کے مسائل

سوال

ایک شخص کی عمر چالیس سال سے اوپر ہو چکی ہے،وہ چالیس سال سے پہلے آپ کے فتوی کے مطابق براؤن یاکالے خضاب کا استعمال ازالہ عیب کے لیے کرتے رہے، اب ان کی عمرچالیس سال ہوگئی ہے، عام حالات میں چالیس سال کے بعد کالے یا ایسے براؤن خضاب کا استعمال جو خود بخود کالاہوجاتا ہو آپ کے فتوی کے لحاظ سے درست نہیں، مگر سائل کو ایک مجبوری لاحق ہے اوروہ یہ کہ چونکہ بال نیچے سے بڑھتے ہیں اس لیے چالیس سال سے پہلے لگائے گئے خضاب کی وجہ سے نیچے کے بال کالے رہتے ہیں، جبکہ جڑوں کی جانب سفید ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ عجیب سے عجیب تر لگتے ہیں، اگر کسی اوررنگ کا استعمال کریں توہ کالے سے میچ نہیں ہوتا،لہذا پھر عیب رہتاہے نیز اچھے اورمہنگے کلرسائل مالی حالت کی وجہ سےخرید نہیں سکتا اورسستے کلروں میں یہ مسئلہ کہ وہ ذرا زیادہ دیر رہنے کی وجہ سے کالے ہوجاتے ہیں، حالانکہ کلربراؤن استعمال کیا گیاہوتاہے، سائل کی ایک اورمجبوری یہ ہے کہ ان کی ڈاڑھی کے بال دیر سے بڑھتے ہیں،لہذا اگروہ اس کاانتظار کرےکہ بال مکمل ایک مشت تک سفید ہوجائیں تو اس عمل کو تقریباً آٹھ نو ماہ لگیں گے، اوراتنی دیرتک عیب برقراررہے گا کیا ان مجبوریوں کی وجہ سے چالیس سال کے بعد ان کے لیے کالے خصاب کا یا ایسے خضاب کا استعمال جائزہے جو خودبخود زیادہ دیررہنے کی وجہ سے کالے میں تبدیل ہوجائے ؟ تفصیلی جواب دے کر ممنون فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سیاہ خضاب لگانے کی احادیثِ مبارکہ میں صراحةً ممانعت کی گئی ہے اور بعض احادیث میں اس پر وعیدیں بھی وارد ہوئی ہیں، چنانچہ ایک حدیث میں وارد ہے: سنن أبي داود ت الأرنؤوط (6/ 272) دار الرسالة العالمية: حدثنا أبو توبة، حدثنا عبيد الله، عن عبد الكريم، عن سعيد بن جبيرعن ابن عباس، قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - : "يكون قوم يخضبون في آخر الزمان بالسواد كحواصل الحمام، لا يريحون رائحة الجنة" ترجمہ: حضرت ابن عباس رضي الله سے مروی ہے کہ حضور اكرم صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آخر زمانہ میں ایسی قوم آئے گی جو سیاہ خضاب لگائے گی، جیسا کہ کبوتر کے پوٹے۔وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگے گی۔ اس ليے اكثر فقہائے احناف رحمہم اللہ نے سوائے مجاہد کے عام حالات ميں سیاہ خضاب لگانے کو مکروہ قرار دیا ہے، البتہ امام ابویوسف رحمہ اللہ تعالیٰ کا قول یہ ہے کہ اگر آدمی اپنی بیوی کی خاطر سیاہ خضاب لگائے تو اس کی گنجائش ہے، لہذا اگر کسی شخص کے بال چالیس سے پہلے سفید ہونا شروع ہو جائیں تو مجبوری کے پیشِ نطر امام ابویوسف رحمہ اللہ تعالیٰ کےقول پر عمل کرتے ہوئے ازالہٴ عیب کے لیے سیاہ خضاب لگانے کی گنجائش ہے۔ جہاں تک چالیس سال کے بعد سیاہ خضاب لگانے کا تعلق ہے تو اس عمر میں چونکہ عام طور پر بال سفید ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور معاشرے میں اس کو عیب بھی شمار نہیں کیا جاتا، لہذا بغیر کسی عذرِ معتبر کے سیاہ خضاب یا ایسا خضاب جو کچھ دیر بعد خود بخود سیاہ ہو جاتا ہو، کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔باقی سوال میں جس عذر کا ذکرکیا گیا ہے وہ عذر شرعاً معتبر نہیں ہے، کیونکہ مکمل ڈاڑھی سفید ہونے میں عام طور پر سات آٹھ مہینے تو لگ ہی جاتے ہیں۔ نیز واضح رہے کہ احادیثِ مبارکہ میں سفید بالوں کی بڑی تعریف بیان کی گئی ہے، چنانچہ السنن الكبرى للبيہقی (7/ 311) کی حدیث میں وارد ہے: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- :« لا تنزعوا الشيب فإن أحدكم لا يشيب شيبة فى الإسلام إلا رفعه الله تعالى بها درجة وكتب له بها حسنة ومحا عنه بها سيئة ». ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بڑھاپے(سفيد بال) كو دور نہ كرو، جو شخص بھی اسلام کی حالت میں بوڑھا ہو جائے اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند فرماتے ہیں، اس کے لیے ایک نیکی لکھنے کا حکم دیتے ہیں اور ایک گناہ معاف فرما دیتے ہیں۔ "إتحاف الخيرة المہرة " کی ایک روایت میں علامہ بوصیری رحمہ اللہ نے یہ الفاظ بھی نقل فرمائے ہیں: "اس کے لیے قیامت کے دن ایک نور ہو گا، جب تک کہ اس کا خضاب نہ کرے۔" اس كی شرح ميں امام ابویعلی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس سے سیاہ خضاب مراد ہے۔ لہذا سفید بالوں کو اللہ تعالیٰ کی نعمت سمجھ کر قدر کرنی چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھتے ہوئے ان کو برقرار رکھنا چاہیے۔
حوالہ جات
إتحاف الخيرة المهرة (4/ 551) أحمد بن أبي بكر بن إسماعيل البوصيري: عن عمرو بن عبسة ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من شاب شيبة في الإسلام كانت له نورا يوم القيامة ، ما لم يخضبها ، أو ينتفها أحسبه يعني يخضبها بالسواد ، أبو يعلى يقول ذلك. مسند أحمد (21/ 210)، مؤسسة الرسالة، بیروت: حدثنا قتيبة قال أخبرنا ابن لهيعة عن خالد بن أبي عمران عن سعد بن إسحاق بن كعب بن عجرة عن أنس بن مالك قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم غيروا الشيب ولا تقربوه السواد۔ الموسوعة الفقهية الكويتية (2/ 280): وقال الحافظ في الفتح : إن من العلماء من رخص في الاختضاب بالسواد للمجاهدين ، ومنهم من رخص فيه مطلقا ، ومنهم من رخص فيه للرجال دون النساء، وقد استدل المجوزون للاختضاب بالسواد بأدلة : منها : قول رسول الله صلى الله عليه وسلم إن أحسن ما اختضبتم به لهذا السواد ، أرغب لنسائكم فيكم ، وأهيب لكم في صدور أعدائكم ومنها ما روي عن عمر بن الخطاب أنه كان يأمر بالخضاب بالسواد، ويقول : هو تسكين للزوجة ، وأهيب للعدو . ومنها أن جماعة من الصحابة اختضبوا بالسواد ، ولم ينقل الإنكار عليهم من أحد ، منهم عثمان وعبد الله بن جعفر والحسن والحسين . وكان ممن يختضب بالسواد ويقول به محمد بن إسحاق صاحب المغازي ، وابن أبي عاصم ، وابن الجوزي۔ حاشية ابن عابدين (6/ 756)ايچ ايم سعيد: قوله ( جاز في الأصح ) وهو مروي عن أبي يوسف فقد قال يعجبني أن تتزين لي امرأتي كما يعجبها أن أتزين لها ، والأصح أنه لا بأس به في الحرب وغيره ، واختلفت الرواية في أن النبي فعله في عمره والأصح لا ۔ وفصل في المحيط بين الخضاب بالسواد قال عامة المشايخ أنه مكروه وبعضهم جوزه مروي عن أبي يوسف أما بالجمرة فهو سنة الرجال وسيما المسلمين إ هـ المبسوط للسرخسي (10/ 346) دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت: ولا خلاف أنه لا بأس للغازي أن يختضب في دار الحرب ليكون أهيب في عين قرنه وأما من اختضب لأجل التزين للنساء والجواري فقد منع من ذلك بعض العلماء رحمهم الله تعالى والأصح أنه لا بأس به وهو مروي عن أبي يوسف رحمه الله تعالى قال كما يعجبني أن تتزين لي يعجبها أن أتزين لها۔ الفتاوى الهندية (5/ 359)، دار الفكر، بيروت: وأما الخضاب بالسواد فمن فعل ذلك من الغزاة ليكون أهيب في عين العدو فهو محمود منه اتفق عليه المشايخ رحمهم الله تعالى ومن فعل ذلك ليزين نفسه للنساء وليحبب نفسه إليهن فذلك مكروه وعليه عامة المشايخ وبعضهم جوز ذلك من غير كراهة وروي عن أبي يوسف رحمه الله تعالى أنه قال كما يعجبني أن تتزين لي يعجبها أن أتزين لها كذا في الذخيرة وعن الإمام أن الخضاب حسن لكن بالحناء والكتم والوسمة وأراد به اللحية وشعر الرأس والخضاب في غير حال الحرب لا بأس به في الأصح كذا في الوجيز للكردري۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب