محترم مفتی صاحب!کچھ عرصہ پہلےمیں نےاپنی بیٹی کی شادی اپنے دوست کےبیٹےسےکرائی،اورمہرمیں پانچ تولے سونااورایک مکان طےپایا جس میں اب وہ دونوں رہتےہیں ،میرادامادباپ کی وفات کےبعدکام کےسلسلےمیں باہر چلاگیااورتقریبا گیارہ بارہ سال سےوہ باہرہے ۔پانچ چھ سال تک وہ میری بیٹی کےلیےپیسےبھیجتے رہےاورفون پررابطہ رہتاتھااورکہتاتھابہت جلدآؤں گا۔چارپانچ سال گزرگئےہیں لیکن انہوں نےنہ رابطہ کیااورنہ ہی اپنی بیوی کےلیےپیسےبھیجے،میں اپنی بیٹی کوگھر چلانےکے لیےپیسے دیتا رہتا ہوں۔میں نےبھی بہت کوشش کی لیکن رابطہ نہیں ہوسکا۔کچھ عرصہ پہلےرابطہ ہواتو میں نےکہااب گھرواپس آجاؤ،گھروالوں کابھی خیال کرو،اس نےکہااب میں نہیں آسکتا،میں نےکہاکہ نہ خودیہاں آرہےہواورنہ ہی گھرکاخرچ چلانےکےلیےپیسےبھیج رہےہوتوآپ کی بیوی کوکون سنبھالےگا؟اس نےکہا کہ آپ جانواورآپ کی بیٹی جانے،میرااس سےکوئی واسطہ نہیں۔میں نےغصہ میں کہا کہ وہ آٹھ سال سےآپ کےانتظارمیں بیٹھی ہےاورتم کہتےہوکہ واسطہ نہیں؟تواس نےکہاکہ میرا آپ سے کوئی رشتہ نہیں اورتمہاری بیٹی کومیری طرف سےطلاق ہےاوروہ میری طرف سےآزادہے،اس کوکہوکہ میراانتظارنہ کرے اورتم کہیں اوراس کی شادی کروادو،یہ کہہ کرانہوں نےرابطہ ختم کردیا۔پھر کچھ دن بعدگاؤں جاناہوا،وہاں میں نےاپنی بیٹی کانکاح کراکےشادی کاوقت طے کردیا،کچھ دن پہلےجب بھائیوں کوپتاچلا توبہت غصہ ہوگئےاورکہنےلگےکہ ایک تواس بغیرت نےہماری لڑکی کےساتھ براکیااورتم نےبھی بغیربتائےبیٹی کانکاح کر کے شادی بھی طےکردی،میں نے کہا میں بہت پریشان تھا،اس لیےجلدی میں یہ فیصلہ کیا،اس کے بعدوہ خاموش ہوگئے،پھرایک بھائی نےکہا کہ جب شوہرنےطلاق دی ہےتوطلاق کےبعدبیوی کوکچھ وقت کےلیے شوہرکےگھرمیں رہناضروری ہوتاہےاورتم اپنی بیٹی کوگاؤں لےگئےاورنکاح بھی کروادیا،ایسا کرناٹھیک معلوم نہیں ہوتا ،پھربھائی نےکہاپھربھی کسی عالم سےپوچھیں تاکہ بعدمیں کوئی پریشانی نہ ہو۔مولوی صاحب کیایہ نکاح پڑھوانا ٹھیک تھایانہیں ؟اوراگرٹھیک نہیں تونکاح کاطریقہ کیاہوگا؟برائےمہربانی اس مسئلہ میں ہماری رہنمائی کریں۔
جواب ننقیح:میں پندرہ بیس دن بعدگاؤں چلاگیاتھااوروہاں سےایک ہفتےبعدواپسی ہوئی۔بس یہ سمجھ لیں جب سےاس نےطلاق دی ہے اب تک ڈیڑھ ماہ گزرچکاہے۔
جواب ننقیح:جب میری بیٹی کوپتاچلا کہ شوہر نے طلاق دی ہے،تواس نے شوہرکے رشتےداروں کےزریعے شوہر سے بات کی تو اس کو بھی وہی طلاق والی بات کہی اورکہاکہ اگرمیں یہاں ہوتاتوطلاق کے پیپر تمہارے منہ پرمارتا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگر سوال میں ذکرکردہ تفصیل درست ہےاورشوہراپنی بیوی کوانہی الفاظ کےساتھ طلاق دے چکاہےتو جب تک وہ طلاق کےبعدتین حیض کےبقدر عدت نہ گزارےاس وقت تک کسی سےنکاح نہیں ہوسکتا۔یہ نکاح جوعدت میں ہواناجائزہے۔ دوسرےشوہرنےاگر صحبت کرلی ہےتوعورت پر پہلی عدت کےساتھ دوسرے خاوندکی عدت بھی لازم ہوگی،مگر پہلی عدت گزارتےوقت دوسری عدت اسی میں محسوب ہوگی،البتہ پہلی عدت گزارنےکے بعدموجودہ شوہرسےنکاح کرسکتی ہے۔
حوالہ جات
(ويجب مهر المثل في نكاح فاسد) وهو الذي فقد شرطا من شرائط الصحة كشهود (بالوطء) في القبل (لا بغيره) كالخلوة لحرمة وطئها (ولم يزد) مهر المثل (على المسمى) لرضاها بالحط، ولو كان دون المسمى لزم مهر المثل لفساد التسمية بفساد العقد، ولو لم يسم أو جهل لزم بالغا ما بلغ (و) يثبت (لكل واحد منهما فسخه ولو بغير محضر عن صاحبه دخل بها أو لا) في الأصح خروجا عن المعصية. فلا ينافي وجوبه بل يجب على القاضي التفريق بينهما (وتجب العدة بعد الوطء) لا الخلوة للطلاق لا للموت (من وقت التفريق) أو متاركة الزوج. (قوله للطلاق) متعلق بمحذوف حال من العدة، وقوله لا للموت عطف عليه، والمراد أن الموطوءة بنكاح فاسد سواء فارقها أو مات عنها تجب عليها العدة التي هي عدة طلاق وهي ثلاث حيض؛ لا عدة موت وهي أربعة أشهر وعشر، وهذا معنى قول المنح والبحر: والمراد بالعدة هنا عدة الطلاق. (رد المحتارعلي الدر المختار:3/ 131ایچ ـ ایم ـ سعید)
(قال) وإذا تزوجت المرأة المعتدة من الطلاق برجل ودخل بها ففرق بينهما فعليها عدة واحدة من الأول والآخر ثلاث حيض، وهو مذهبنا لأن العدتين إذا وجبتا يتداخلان وينقضيان بمضي مدة واحدة إذا كانتا من جنس واحد. (المبسوط للسرخسي :6/ 41)
وإذا وطئت المعتدة بشبهة فعليها عدة أخرى، وتداخلت العدتان، ويكون ما تراه من الحيض محتسبامنهما جميعا. وإذا انقضت العدة الأولى ولم تكمل الثانية فعليها إتمام العدة الثانية، وهذا عندنا وقال الشافعي - رَحِمَهُ اللَّهُ - لا تتداخلان، لأن المقصود هو العبادة فإنها عبادة كف عن التزوج والخروج، فلا تتداخلان كالصومين في يوم واحد. ولنا أن المقصود التعرف على فراغ الرحم، وقد حصل بالواحدة فتتداخلان ومعنى العبادة تابع، ألا ترى أنها تنقضي بدون علمها ومع تركها الكف.(الھدایۃ:3/339،ادارۃ القرآن)
وفي الدرر: اعلم أن المرأة إذا وجب عليها عدتان، فإما أن يكونا من رجلين، أو من واحد، ففي الثاني لا شك أن العدتين تداخلتا، وفي الأول إن كانتا من جنسين كالمتوفى عنها زوجها إذا وطئت بشبهة، أو من جنس واحد كالمطلقة إذا تزوجت في عدتها فوطئها الثاني وفرق بينهما تداخلتا عندنا ويكون ما تراه من الحيض محتسبا منهما جميعا، وإذا انقضت العدة الأولى ولم تكمل الثانية فعليها إتمام الثانية. اهـ. (رد المحتارعلي الدر المختار:3/ 519)