سوال:کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں:
میری موبائل کی دکان ہےاورمہینےمیں دودفعہ سامان خریدنےکےلیےمارکیٹ جاناپڑجاتاہے۔وہاں ایک کرسچن دکاندارسےدکان کےلیےسامان خریدتاہوں۔وہ مجھےاچھے ریٹ پرسامان دیتاہے۔ کبھی کبھاروہ کھانےپربیٹھاہوتاہے اوران کےکہنےپرمیں بھی کھانےکےلیےبیٹھ جاتاہوں۔وہ کھانامارکیٹ کے ہوٹل کاہوتاہےاورہوٹل ہمارےمسلمان بھائیوں کاہے۔کیامیرے لیے یہ کھاناکھاناصحیح ہے یا نہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
کھانااگر چہ مسلمان کےہاں سےلایاگیاہولیکن ایسے برادرانہ تعلقات میں احتیاط لازم ہے۔ کھانے کے وقت وہاں نہ جائیں اوربچنےکی حتی الامکان کوشش کریں۔
حوالہ جات
وفی الفتاوى الهندية :ولم يذكر محمد رحمه الله تعالى الأكل مع المجوسي ومع غيره من أهل الشرك أنه هل يحل أم لا؟ وحكي عن الحاكم الإمام، عبد الرحمن، الكاتب أنه إن ابتلي به المسلم مرة أو مرتين فلا بأس به، وأما الدوام عليه ،فيكره ،كذا في المحيط.....ولا بأس بالذهاب إلى ضيافة أهل الذمة، هكذا ذكر محمد رحمه الله تعالى .وفي أضحية النوازل :المجوسي أو النصراني إذا دعا رجلا إلى طعامه تكره الإجابة .وإن قال: اشتريت اللحم من السوق ،فإن كان الداعي نصرانيا فلا بأس به. وما ذكر في النوازل في حق النصراني يخالف رواية محمد رحمه الله تعالى على ما تقدم ذكرها، كذا في الذخيرة. (الفتاوى الهندية :5/ 347،رشیدیۃ)