021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نفقہ نہ دینے کی صورت میں نکاح فسخ کرنےکاحکم
61251طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ ہذہ کےبارےمیں:میری(فاطمہ مظفرکی) شادی عبدالحلیم سے ہوئی تھی،شادی کے تقریباایک سال چارماہ بعدمیرےشوہرکاایکسیڈنٹ ہوا اور فوت ہوگئے،وفات کےبعدان کےوالدین اوران کےاورلوگوں نےمجھےعبدالحلیم کےچھوٹےبھائی عبدالمتین سےشادی کرنےکےلیے مجبور کیا،میں عبدالمتین سے بالکل شادی نہیں کرناچاہتی تھی لیکن مجبور تھی،کیونکہ نہ ہی میرےوالدین تھےاورنہ ہی اورقریبی رشتےدار کہ ان کےپاس چلی جاتی،بہرحال میں نے عبدالمتین سے شادی کی حامی بھرلی،کیونکہ انہوں نےدھمکی دی تھی کہ اگر شادی نہیں کروگی توہم آپ سے آپ کابیٹالےلیں گے۔شادی میں نے اس شرط کے ساتھ کی کہ شادی کےبعدمیں گاؤں میں نہیں رہوں گی(انہوں نے قبول کرلیا)،شادی کے بعد ہم(میاں بیوی) لاہور آگئے،یہاں آکر میں نےایک مدرسے میں پڑھناشروع کیااورباقی وقت میں ٹیوشن پڑھاکرگھرکاکرایہ اورخرچہ وغیرہ چلاتی تھی۔عبدالمتین نہ شادی سےپہلےکام کرتےتھےاورنہ شادی کےبعدبلکہ شادی کےبعدمدرسےمیں داخلہ لےکرپڑھناشروع کردیا۔میں نےبارہاکہاکہ کوئی کام وغیرہ بھی کریں توان کاجواب یہ ہوتاکہ میں کام کرنےکےلیےنہیں آیا،میں پڑھنےآیاہوں،اورلوگوں کی باتوں میں آکرمیرےساتھ لڑائی جھگڑا کرنابھی شروع کردیا،آخر میں حالات سے تنگ آکرعبدالمتین سے علیحدگی کافیصلہ کرلیااورعدالت سےرجوع کیااورتنسیخِ نکاح کادعوی کیا،عدالت نے میرے حق میں ڈگری جاری کردی،جبکہ عبدالمتین نےعدالت میں بیانِ حلفی دیاہےکہ میں نان ونفقہ دیتاتھا جوسراسرجھوٹ ہے۔ اب عبدالمتین مجھے طلاق دینےکےلیے راضی نہیں اورواپسی کی صورت بہت مشکل ہے،مجھے عبدالمتین سے سخت نفرت ہے،اس صورت حال میں اگرعدالت کافیصلہ معتبرنہیں توارشادفرمائیےکہ جان چھڑانےکاکیاراستہ ہےتاکہ ہم کہیں عقدثانی کاسوچ سکیں۔ بذریعہ فون پوچھنےپرمستفتی نےمزیدیہ بتایامیاں بیوی کےحالات اوربیوی کےبیان کو مدنظر رکھتے ہوئےبیوی کےپاس گواہ نہ ہونےاورخاوندکاحلفیہ بیان دینےکےباوجودعدالت نے بیوی کےحق میں فیصلہ دیا۔زوجین تین سال سے علیحدہ ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

یہاں دوباتیں قابل غور ہیں 1- عدالت کےیک طرفہ خلع کافیصلہ دینےکی شرعی حیثیت 2-نفقہ نہ دینے کی صورت میں خاوند سےخلاصی کی صورت 1-پہلی بات کاجواب یہ ہےکہ منسلکہ عدالتی فیصلہ شریعت کی روسےخاوندکی رضامندی پرموقوف ہے،کیونکہ اس فیصلےمیں خلع کا حکم ہے اور شریعت مطہرہ میں خلع بھی دیگرعقودکی طرح ایک عقدہے جوفریقین کی رضامندی کےبغیرمکمل نہیں ہوتا،اوراس فیصلےمیں شوہرکی رضامندی نہ ہونےکی وجہ سےخلع منعقدہی نہیں ہوا،لہذایہ فیصلہ شرعامعتبر نہیں اورنکاح بدستورباقی ہے۔
حوالہ جات
وأما ركنه فهو كما في البدائع : إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض ، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول. (رد المحتار،باب الخلع :3/ 441 طبع :ایچ ایم سعید) ولا بد من قبولها؛ لأنه عقد معاوضة أو تعليق بشرط فلا تنعقد المعاوضة بدون القبول، ولأن المعلق ينزل بدون الشرط إذ لا ولاية لأحدهما في إلزام صاحبه بدون رضاه. (تبيين الحقائق،باب الخلع :2/ 271مکتبہ امدادیہ ملتان) 2-اوردوسری بات کاجواب یہ ہےکہ اگرآپ کاخاوند نان ونفقہ دینے پرتیار نہیں اورطلاق دینےپربھی رضامندنہیں ہوتا توآپ وصول شدہ مہراس کوواپس کرکےاس سےخلع لےلیں،اگرخلع پربھی رضامندنہ ہوتوآپ عدالت میں تنسیخِ نکاح کادعوی دائرکردیں اورعدالت میں گواہوں کے ذریعے ثابت کردیں کہ میرا خاوندمجھےنان ونفقہ نہیں دےرہا۔عدالت شوہرکونوٹس بھیجےگی کہ نان ونفقہ کاانتظام کرویابیوی کوطلاق دو۔اگرشوہران میں سے کسی بات پربھی تیارنہ ہوتوعدالت تنسیخِ نکاح کی ڈگری جاری کردے گی ،جس کی بنیادپرآپ دونوں کا نکاح ختم ہوجائےگا۔اس کےبعدعدالت کےفیصلہ کرنےکی تاریخ سےآپ کی عدت شروع ہوجائےگی اورآپ اپنی عدت پوری کرکےدوسری جگہ نکاح کرسکتی ہیں ۔ وأما سبب وجوب هذه النفقة فقد اختلف العلماء فيه قال أصحابنا: سبب وجوبها استحقاق الحبس الثابت بالنكاح للزوج عليها وقال الشافعي السبب هو الزوجية وهو كونها زوجة له وربما قالوا: ملك النكاح للزوج عليها وربما قالوا: القوامة واحتج بقوله تعالى {الرجال قوامون على النساء بما فضل الله بعضهم على بعض وبما أنفقوا من أموالهم} [النساء: 34] أوجب النفقة عليهم لكونهم قوامين والقوامة تثبت بالنكاح فكان سبب وجوب النفقة النكاح؛ لأن الإنفاق على المملوك من باب إصلاح الملك واستبقائه فكان سبب وجوبه الملك، كنفقة المماليك ولنا أن حق الحبس الثابت للزوج عليها بسبب النكاح مؤثر في استحقاق النفقة لها عليه لما بينا فأما الملك فلا أثر له؛ لأنه قد قوبل بعوض مرة وهو المهر فلا يقابل بعوض آخر؛ إذ العوض الواحد لا يقابل بعوضين، ولا حجة له في الآية؛ لأن فيها إثبات القوامة بسبب النفقة لا إيجاب النفقة بسبب القوامة. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (4/ 16) وأماالجواب عن امرأۃ المعسرالذی لایجدماینفق علیھاففی المدونۃقال لنامالک:وکل من لم یقو علی نفقۃامرأتہ فرق بینھما،ولم یقل لنامالک حرۃولاأمۃ.وقال:لأن الرجل إذاکان معسرالایقدرعلی نفقۃ المرأۃفلیس لھاعلیہ النفقۃ، إنمالھاأن تقیم معہ أویطلقھا....ابن وھب عن مالک وغیرہ عن سعیدبن المسیب أنہ کان یقول:إذالم ینفق الرجل علی امرأتہ یفرق بینہما.قال:وسمعت مالکایقول:کان من أدرکت یقولون:أذالم ینفق الرجل علی امرأتہ فرق بینہما.(الحیلۃ الناجزۃ:ص 132،دارالإشاعة كراتشي)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / فیصل احمد صاحب