021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غاصب سے مغصوبہ زمین اجارے پر لینے والے پر زمین اصل مالک کولوٹاناضروری ہے
60985غصب اورضمان”Liability” کے مسائل متفرّق مسائل

سوال

کیافرماتےہیں علماء کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ شیرنواب(فرضی نام) ایک ظالم اورجابرآدمی تھا اوروہ لوگوں پرمختلف قسم کے ظلمیں کرتا تھا،ان ظلموں میں سے ایک ظلم یہ بھی تھا کہ ایک گاؤں تھا اس میں جتنے لوگ آباد تھے یہ پورا گاؤں اوراس کے ساری زمینیں ان لوگوں کے آبائی اورپدری جائیدیں تھیں اوران لوگوں نے یہ جائدادیں آپس میں تقسیم کررکھی تھی اورہر آدمی اپنے اپنے حصے میں آبادی بناتاتھا اورکاشت کیاکرتا تھا ، جب یہ ظالم اورجابر آیا تو اس نے پورے گاؤں کو دو حصوں میں تقسیم کردیا اورکہا کہ آدھا گاؤں میراہے اورآدھا تمہارا ،اورپھر کہاکہ جولوگ میرے والے حصے میں کاشت کرنا چاہتے ہیں و ہ مجھے اجارہ دیاکرے اورکاشت شروع کرے، کچھ لوگ دوسرے گاؤں سے آئیں اورکچھ اسی گاؤں کے تھے وہ نواب صاحب کے حصہ زمین میں گاشت کرتے تھے اورنواب صاحب کو اجارہ دیاکرتے تھے ، جب صدر ایوب خان نے نواب صاحب کو پھانسی دیدی توپھر لوگ یہ اجارہ نواب صاحب کے اولاد کو دیاکرتےتھے ،اب چند سال ہوگئے ہیں کہ ان لوگوں نے نواب کے اولاد پر اجارہ بند کردیاہے اوروہ زمینیں ان اجارہ داروں کے پاس ویسے رہ گئی ،تواب پوچھنایہ ہے کہ ان زمینوں کے اصل مالک تو معلوم ہیں ،صرف نواب صاحب کے ظلم اور بربریت کی وجہ سے یہ زمینیں ان اجارہ داروں کے پاس چلی گئیں تھی،تو آیا یہ زمینیں ان اجارہ داروں کے لیے حلال ہیں یا حلال نہیں اورکیا ان پر یہ لازم ہے کہ زمینیں اپنے اصل مالکوں کو لوٹادیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر آپ کا بیان درست ہے تومذکورنواب صاحب کاآدھے گاؤں کی زمینوںپراس طرح ناحق قبضہ کرنا سنگین جرم اور کبیرہ گناہوں کے زمرےمیں آتاہے، بلکہ ایک حدیث میں تو یہاں تک آیا ہے کہ ’’لعن الله من غير منار الأرض‘‘ ایک اور مقام پر یوں بھی الفاظ ہیں کہ ’’لعن الله من سرق منار الأرض‘‘ او کما قال علیہ السلام( اللہ کی لعنت ہو اس پر جس نے زمین کے نشانات تبدیل کیے یا چوری کیے)۔ ایک اورحدیث میں ہے کہ حضرت یعلی بن مرۃ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص زمین کا کوئی بھی حصہ ناحق (یعنی ازراہ ظلم) لے گا اسے حشر کے دن اس بات پر مجبور کیا جائے گا کہ وہ اس زمین کی ساری مٹی سات زمینوں تک اپنے سر پر اٹھائے (مسند احمد) ایک اورحدیث میں ہے کہ ’’ليس لعرق ظالم حق‘‘جس کی تشریح میں شارحینؒ نے لکھاہے کہ جو کسی غیر کی زمین چھین کر اس میں کوئی درخت یا کھیت لگاتاہے اس کاکوئی حق نہیں، لہذا اس کالگایاہوا درخت اورکھیت کاٹاجائے گا اورعمارت اکھیڑی جائے گی ۔ شریعت کی مذکورہ بالا نصوص کی روشنی میں نواب کے ورثہ پر لازم ہےکہ زمین اصل مالکوں کو واپس لوٹادیں اوراس گناہ پر توبہ کریں اوراصل مالکوں سےمعافی بھی مانگیں،اسی طرح نواب صاحب سے اجارہ پر زمین حاصل کرنے والوں پر بھی واجب ہے کہ اب تک اپنے کئے پر توبہ واستغفارکریں اورزمین فوراًاصل مالکوں کو واپس کرکے ان سے بھی معافی مانگیں،اوراب تک جوآمدن حاصل کی ہےوہ بھی (بیج کی مقدارنکالکر)انہیں دیں یامعاف کرالیں،ورنہ قیامت کے دن مذکورہ بالاتمام وعیدوں کےمستحق ٹھہریں گے۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 98) وفي حظر الأشباه: الحرمة تتعددمع العلم بها إلا في حق الوارث، وقيده في الظهيرية بأن لا يعلم أرباب الأموال، وسنحققه ثمة. شرح السنة للبغوي (8/ 229) عن سالم، عن أبيه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «من أخذ من الأرض شيئا بغير حقه، خسف به يوم القيامة إلى سبع أرضين». رواه البخاري مسند أحمد مخرجا (15/ 18) عن أبي هريرة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من أخذ شبرا من الأرض بغير حقه، طوقه من سبع أرضين» مستخرج أبي عوانة (4/ 54) قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من اقتطع أرضا ظالما لقي الله يوم القيامة وهو عليه غضبان» مسند أحمد مخرجا (29/ 334) عن أبي مالك الأشجعي، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «أعظم الغلول عند الله ذراع من الأرض، تجدون الرجلين جارين في الأرض أو في الدار، فيقتطع أحدهما من حظ صاحبه ذراعا، فإذا اقتطعه طوقه من سبع أرضين إلى يوم القيامة» صحيح مسلم (3/ 1567) قال(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم): «لعن الله من لعن والده، ولعن الله من ذبح لغير الله، ولعن الله من آوى محدثا، ولعن الله من غير منار الأرض» السنن الكبرى للبيهقي (6/ 164) عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن سعيد بن زيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من أحيا أرضا ميتة فهي له، وليس لعرق ظالم حق " شرح السنة للبغوي (8/ 271) وقوله: «ليس لعرق ظالم حق» هو أن يغصب أرض الغير، فيغرس فيها أو يزرع، فلا حق له، ويقلع غراسه وزرعه. فتح القدير للكمال ابن الهمام (9/ 321) قال (وعلى الغاصب رد العين المغصوبة) معناه ما دام قائما لقوله - عليه الصلاة والسلام - «على اليد ما أخذت حتى ترد» وقال - عليه الصلاة والسلام - «لا يحل لأحد أن يأخذ متاع أخيه لاعبا ولا جادا، فإن أخذه فليرده عليه» ولأن اليد حق مقصود وقد فوتها عليه فيجب إعادتها بالرد إليه، وهو الموجب الأصلي على ما قالوا. المبسوط للسرخسي (11/ 49) اما الكتاب فقوله تعالى: {يا أيها الذين آمنوا لا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل إلا أن تكون تجارة عن تراض منكم} [النساء: 29] وقال تعالى: {إن الذين يأكلون أموال اليتامى ظلما إنما يأكلون في بطونهم نارا} [النساء: 10] وقال - صلى الله عليه وسلم -: «لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيبة نفس منه» وقال - صلى الله عليه وسلم -: «سباب المسلم فسق، وقتاله كفر، وحرمة ماله كحرمة نفسه» وقال - صلى الله عليه وسلم - في خطبته: «ألا إن دماءكم وأعراضكم وأموالكم حرام عليكم كحرمة يومي هذا في شهري هذا في مقامي هذا» (فثبت) أن الفعل عدوان محرم في المال كهو في النفس؛ ولهذا يتعلق به المأثم في الآخرة كما قال - صلى الله عليه وسلم -: «من غصب شبرا من أرض طوقه الله تعالى يوم القيامة من سبع أرضين» إلا إن المأثم عند قصد الفاعل مع العلم به.فأما إذا كان مخطئا بأن ظن المأخوذ ماله أو كان جاهلا بأن اشترى عينا ثم ظهر استحقاقه لم يكن آثما لقوله - صلى الله عليه وسلم -: «رفع عن أمتي الخطأ والنسيان» والمراد المأثم.فأما حكمه في الدنيا فثابت سواء كان آثما فيه أو غير آثم؛ لأن ثبوت ذلك لحق صاحبه وحقه مرعي، وإن الآخذ معذور شرعا لجهله وعدم قصده، والحكم الأصلي الثابت بالغصب وجوب رد العين على المالك بقوله - صلى الله عليه وسلم -: «على اليد ما أخذت حتى ترد» وقال - صلى الله عليه وسلم -: «لا يحل لأحد أن يأخذ متاع أخيه لاعبا، ولا جادا، فإن أخذه فليرده عليه» وقال - صلى الله عليه وسلم -: «من وجد عين ماله فهو أحق به» ومن ضرورة كونه أحق بالعين وجوب الرد على الآخذ بدونه فالضمان لأنه حق العبد فلا يتوقف على قصده ولا إثم لأن الخطأ موضوع. الجوهرة النيرة على مختصر القدوري (1/ 342) (ومن غصب أرضا فغرس فيها أو بنى فيها قيل له اقلع البناء والغرس وردها إلى مالكها) لقوله - عليه الصلاة والسلام - «ليس لعرق ظالم حق» ولأن ملك صاحب الأرض باق فإن الأرض لم تصر مستهلكة والغصب لا يتحقق فيها فيؤمر الغاصب بتفريغها كما إذا أشغل ظرف غيره بطعامه ومعنى قوله - عليه الصلاة والسلام - «ليس لعرق ظالم حق» أي ليس لذي عرق ظالم وهو الذي يغرس في الأرض غصبا ووصف العرق بالظلم والمراد صاحبه وفي بعض الروايات ليس لعرق ظالم على الإضافة إلى العرق قوله (فإن كانت الأرض تنقص بقلع ذلك فللمالك أن يضمن له قيمة البناء والغرس مقلوعا ويكون المقلوع له)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب