کیافرماتےہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
جس کی قریبی رشتہ داروں سے ناراضگی اورقطعِ تعلق ہو حتی کہ اپنے سگے بھائی کے ساتھ بھی اس کی نہ لگتی ہو، اب یہ آدمی عمرے کی ادائیگی کے لیے جارہاہے ،کیا اس شخص کو یہ چاہیے کہ پہلے اپنے رشتے داروں کے ساتھ تعلقات درست کرلے یعنی جو لوگ ناراض ہیں ان سے صلح کرلے یا ان ناراضگیوں کے باوجود وہ عمرے پر جاسکتاہے ؟ کیا اس شخص کا یہ عمل کہ اپنے قریبی رشتے داروں کی ناراضگی کے باوجود عمرے پر جارہاہے درست ہے؟ شریعت اس شخص کے بارےمیں کیاکہتی ہے کہ اس کو عمرے پر جانے سے پہلے کیاکرناچاہیے ؟ رہنمائی فرمائیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
عمرہ پر جانے والے کیلئے مستحب ہے کہ اگر اس پر کسی کے حقوق ہوں تو ان کو ادا کردے، کسی کو ناراض کیا ہو تو اس کو راضی کرلے۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں عمرہ پرجانے سے پہلےعزیز و اقارب کی ناراضگی دورکی جائے،پھرعمرہ کے لیےجائے، ویسے بھی تین دن سے زیادہ کسی مسلمان بھائی سے بات چیت بند کرنا جائز نہیں ہے۔
حوالہ جات
وفی الھندیۃ(۲۱۹/۱)
(وأما آدابہ) فإنہ إذا أراد الرجل أن یحج قالوا ینبغی أن یقضی دیونہ کذا فی الظھیریۃ ویشاور ذارأی فی سفرہ فی ذلک الوقت لافی نفس الحج فإنہ خیر وکذا یستخیر اﷲ تعالیٰ فی ذلک وسنتھاأن یصلی رکعتین بسورۃ الإخلاص ویدعو بالدعاء المعروف للاستخارۃ عنہ علیہ السلام ثم یبدء بالتوبۃ وإخلاص النیۃ وردّالمظالم والاستحلال من خصومہ ومن کل من عاملہ.
وفی صحیح البخاررقم الحدیث(۶۲۳۷)
عن أبي أیوب رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا یحل لمسلم أن یہجر أخاہ فوق ثلاث لیال یلتقیان فیعرض ہذا و یعرض خذت وخیرہما الذي یبدأ بالسلام۔ (ورواہ مالک في الموطا ۲؍۹۰۷و الترغیب و الترھیب رقم: ۴۱۸۹)
وفی صحیح ابن حبان رقم:( ۱۷۵۴)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ثلاثۃ لا ترفع صلاتہم فوق رؤوسہم شبرا … و أخوان متصارمان۔ (سنن ابن ماجۃ رقم: ۹۷۱، صحیح ابن حبان رقم: ۱۷۵۴، الترغیب والترہیب رقم: ۴۲۰۹)قال العیني: التصریح بحرمۃ الہجران فوق ثلاثۃ أیام۔ (عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري ۲۲-۲۳؍۱۳۷)