سوال:زید یوں کرتا ہے کہ شہر میں لگائے گئے سائن بورڈز زیادہ تعداد میں لمبے عرصہ کے لیے کرائے پر لے لیتا ہے۔پھر تھوڑے تھوڑے کر کے کم مدت کے لیے کرائے پر دیتا ہے۔عرصہ کے اختتام تک زید اس میں سے اتنا کرایا وصول کر لیتا ہے کہ مالکان کو بھی ادا کر دیتا ہے اور بچت بھی ہو جاتی ہے۔کیا زید کا یہ کاروبار شرعا درست ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
کرائےپر لی ہوئی چیز جوں کی توں آگے زیادہ کرائے پر دینا شرعاً جائز نہیں۔البتہ اگر اس کے ساتھ کوئی عمل یا چیز اپنی طرف سے شامل کر دی جائے تو کسی بھی قیمت پر کرائے پر دینا جائز ہے۔
مذکورہ صورت میں زید انتظامی امور سنبھال کر اس میں اپنا عمل شامل کر رہا ہے لہذا زید کا یہ کاروبار شرعاًجائز ہے۔
البتہ اگر زید سائن بورڈز کرائے پر لے کر اس میں خودیا اسکی طرف سے کوئی ملازم کوئی عمل نہ کرے اور نہ ہی ان میں کسی قسم کاکوئی اضافہ کرےبلکہ صرف وہی سائن بورڈزاسی طرح زیادہ کرائے پر دے تو جائز نہیں ہو گا۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (6/ 29)
( للمستأجر أن يؤجر المؤجر ) أي ما استأجره بمثل الأجرة الأولى أو بأنقص، فلو بأكثر تصدق بالفضل ۔۔۔۔۔۔۔۔ولو آجر بأكثر تصدق بالفضل إلا في مسألتين: إذا آجرها بخلاف الجنس أو أصلح فيها شيئا،
أي جنس ما استأجر به وكذا إذا آجر مع ما استأجر شيئا من ماله يجوز أن تعقد عليه الإجارة فإنه تطيب له الزيادة كما في الخلاصة. (قوله أو أصلح فيها شيئا) بأن جصصها أو فعل فيها مسناة وكذا كل عمل قائم؛ لأن الزيادة بمقابلة ما زاد من عنده حملا لأمره على الصلاح كما في المبسوط
واللہ سبحانہ و تعالی اعلم