021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غیبت کی حقیقت اور حکم
61750جائز و ناجائزامور کا بیانغیبت،جھوٹ اور خیانت کابیان

سوال

سوال:غیبت کی تعریف سے ہم سب واقف ہیں ۔اگر کوئی واقعہ سنایا جائے ،جس میں جس میں کسی شخص کا نام نہ لیا جائے اور سننے والے کو پتہ نہ چلے کہ کس کا ذکر ہوا یاکس کا واقعہ سنایا گیا ،ہاں سنانے والے کو دل میں علم ہوتا ہے کہ کس کی بات کر رہا ہے۔کیا یہ غیبت کہلائے گا؟ اور کیا کسی موقع پر غیبت کرنے کی گنجائش بھی ہے؟ اس بارے میں کچھ تفصیل ذکر فرما دیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

عن أبي هريرة أن رسول الله {صلى الله عليه وسلم} قال اتدرون ما الغيبة قالوا الله ورسوله أعلم قال ذكرك أخاك بما يكره قيل أفرأيت ان كان في أخي ما أقول قال إن كان فيه ما تقول فقد اغتبته وإن لم يكن فيه ما تقول فقد بهته الجمع بين الصحيحين البخاري ومسلم (3/ 237) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ کہ غیبت کیا ہے؟صحابہ نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا اپنے (مسلمان )بھائی کا ایسا تذکرہ کرنا جسے وہ نا پسند کرتا ہو۔پوچھا گیااگر وہ بات جو میں کہ رہا ہوں میرے بھائی میں موجود ہو تو؟ فرمایا اگر وہ بات اس میں موجود ہو تو تم نے اس کی غیبت کی اور اس میں موجود نہ ہو تو تم نے اس پر بہتان باندھا۔ مذکورہ بالا حدیث مبارکہ کی تشریح کرتے ہوئے امام غزالی اورعلامہ نووی رحمہما اللہ فرماتے ہیں وقال النووي في كتابه الأذكار تبعاً للغزالي: (الغيبة ذكر المرء بما يكرهه سواء كان ذلك في بدن الشخص، أو دينه ، أو دنياه، أو نفسه، أو خَلقه، أو خُلقه، أو ماله، أو ولده، أو زوجه، أو خادمه، أو ثوبه، أو حركته، أو طلاقته، أو عبوسته، أو غير ذلك مما يتعلق به، سواء ذكرته باللفظ أو بالإشارة والرمز). آفات اللسان في ضوء الكتاب واسنة (2/ 1) ہر وہ بات جسے وہ ناپسند کرتا ہو چاہے وہ اسکی جسمانی ہیئت کے متعلق ہو،چاہے اس کے دین کے متعلق ہو یا دنیا کے،اس کے اخلاق کے متعلق ہو یا اس کی شکل و صورت کے،مال کے متعلق ہو یا اولاد کے۔اس کی بیوی کے متعلق ہو یا اس کے خادم کے،اس کے کپڑے کے متعلق ہو یا گھر کے ،اس کی حرکات و سکنات کے متعلق ہو یا انداز گفتگوکے،اس کے علاوہ وہ تمام چیزیں جو اس سے متعلق ہوں،چاہے تم اسے الفاظ کے ساتھ ذکر کرو یا اشارے کنایے سے غیبت میں شامل ہے۔ غیبت کا تعلق نہ صرف زبان سے ہے بلکہ کسی بھی طریقے سے کسی کو ایسی بات سمجھا دینا جسے مذکورہ شخص نا پسند کرتا ہو۔ چلنے یا بولنے میں کسی کی نقل اتارنا بھی غیبت میں شامل ہے۔ البتہ فقہاء نے اس بات کو شرط قرار دیا ہے کہ بات کرتے ہوئے سننے والے کو یہ معلوم ہو جائے کہ بات کس کی ہو رہی ہے۔لہذا اگر اس بات کا یقین ہو کہ سننے والوں میں سے کسی کو معلوم نہیں ہو سکے گا کہ بات کس کی ہو رہی ہے،تو کو ئی حکایت بیان کرنے کی گنجائش ہے،بشرطیکہ اس کا سبب عجب، تکبر،حقارت یا کوئی اور غرض فاسد نہ ہو۔ غیبت کا حرام ہونا قرآن کی صریح آیت ﴿وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ﴾ (سُورَةُ الْحُجُرَاتِ) سے ثابت ہے،اور ایسا گناہ ہے جس کی معافی کےلیے صرف توبہ کافی نہیں بلکہ اس شخص سے معافی مانگنا ضروری ہے ۔اگر معافی مانگنا ممکن نہ ہو یا مزید خرابی پیدا ہونے کا خطرہ ہو تو جہاں اس کی غیبت کی ان مجالس میں اس کی تعریف کر لے امید ہے کہ معاملہ برابر ہو جا ئےبشرطیکہ آئندہ اپنی توبہ پر قائم رہے "والغيبة لا تختص باللسان فحيثُ ما أفهمتَ الغير ما يكرهه المغتاب ولو بالتعريض، أو الفعل، أو الإشارة، أو الغمز، أو اللمز، أو الكتابة، وكذا سائر ما يتوصل به إلى المقصود كأن يمشي مشيه فهو غيبة بل هو أعظم من الغيبة لأنه أعظم وأبلغ في التصوير والتفهيم." آفات اللسان في ضوء الكتاب واسنة (2/ 1) "( لكن يشترط معرفة المخاطب ) أي المغتاب ( وأن يكون على وجه السب ) والقدح فيه لا على وجه الاهتمام ( عند علمائنا ) الحنفية أما على سبيل الترحم أو التظلم منه فلا ( قال قاضي خان في فتاويه رجل اغتاب أهل قرية فقال أهل القرية كذا لم يكن ذلك غيبة لأنه لا يريد به جميع أهل القرية ) لما فيهم من نحو أهل الصلاح والصبيان لكن يشكل أن ذلك يجوز أن يكون بمنزلة عام خص منه البعض ( فكان المراد هو البعض وهو مجهول ) فلا تعيين ولا علم للمخاطب فدل على شرطية معرفة المخاطب لعل هذا إن لم تكن الغيبة بوصف يوجب التعيين منهم أو إن لم تكن قرينة دالة على خصوصهم " بريقة محمودية في شرح طريقة محمدية وشريعة نبوية (4/ 415) فقہاء نے چھ ایسے مقامات بھی ذکر کیے ہیں جن میں غیبت کرنا جائز ہے۔ ١۔ مظلوم اپنا حق حاصل کرنے کے لیے کسی صاحب اقتدار کے سامنے ظالم کے اس برے فعل کا تذکرہ کرے۔ ۲۔ کسی برائی کو ختم کرنےیا کسی شخص کی اصلاح کی غرض سے کسی ایسے شخص کے سامنے ذکر کرنا جو اس کی طاقت رکھتا ہو۔ ۳۔مفتی سے فتوی لینے کےلیے متعلقہ شخص کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہوئے۔ ۴۔مسلمانوں کو کسی شخص کے شر سے بچانے کی خاطر اس کی برائی کے متعلق لوگوں کو آگاہ کرتے ہوئے۔ ۵۔اگر کوئی شخص کسی سے رشتہ جوڑنا چاہے، شراکت کرنا چاہےیا امانت رکھوانا چاہے اور اس کے متعلق کسی سے دریافت کرے تو اس شخص کے لیے جائز ہے کہ اگر اس میں کوئی برائی ہو تو بقدر ضرورت اس کو بیان کرے۔ ٦۔اگر کوئی شخص کوئی کام علانیہ طور پر کرے اور اس کو چھپائے نہ تو اس کی اس صفت کو بیان کرنا بھی جائز ہے
حوالہ جات
"قال الإمام النووي في الأذكار ص423 : " اعلم أن الغيبة وإن كانت محرمة فإنها تباح في أحوال للمصلحة والمجوز لهذا غرض صحيح شرعي لا يمكن الوصول إليه إلا بها ، وهو أحد ستة أسباب: التظلم : فيجوز للمظلوم أن يتظلم إلى السلطان والقاضي وغيرهما ممن له ولاية أو له قدرة على إنصافه من ظالمه فيذكر أن فلاناً ظلمني وفعل بي كذا وأخذ لي كذا ونحو ذلك . الاستعانة على تغيير المنكر ورد العاصي إلى صوابه : فيقول لمن يرجوا قدرته على إزالة المنكر : فلان يعمل كذا فازجره عنه ونحو ذلك ، ويكون مقصوده التوصل إلى إزالة المنكر فإن لم يقصد ذلك كان حراماً . الاستفتاء : بأن يقول للمفتي : ظلمني أبي أو أخي أو فلان بكذا فهل له ذلك أم لا ؟ وما طريقتي في الخلاص منه وتحصيل حقي ودفع الظلم عني ، ونحو ذلك . تحذير المسلمين من الشر ونصيحتهم : وذلك من وجوه منها : جرح المجروحين من الرواة للحديث والشهود وذلك جائز بإجماع المسلمين بل واجب للحاجة . ومنها إذا استشارك إنسان في مصاهرته أو مشاركته أو إيداعه ما تعلمه منه على جهة النصيحة فإن حصل الغرض بمجرد قولك لا تصلح لك معاملته أو مصاهرته أو لا تفعل هذا أو نحو ذلك لم تجزئه الزيادة بذكر المساوئ وإن لم يحصل الغرض إلا بالتصريح بعينه فاذكره بصريحه . أن يكون مجاهراً بفسقه أو يدعته : كالمجاهر بشرب الخمر أو مصادرة الناس وأخذ المكس وجباية الأموال ظلماً وتولي الأمور الباطلة فيجوز ذكره بما يجاهر به ويحرم ذكره بغيره من العيوب إلا أن يكون لجوازه سبب آخر مما ذكرناه ." إيقاظ الأفهام في شرح عمدة الأحكام (1/ 55) واللہ سبحانہ و تعالی اعلم
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب