021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مستاجر کا موجر بننا
68084اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے متفرق احکام

سوال

کیا مستاجر موجر بن سکتا ہے؟ یعنی ایک شخص ایک چیز دوسرے سے کرایہ پر لیتا ہے تو کیا اس شخص کے لیے کرایہ پر لی ہوئی چیز کسی دوسرے کو پہلے عقد اجارہ کی اجرت سے کم یا زیادہ پر اجارہ پر دینا شرعا جائزہے ؟ باحوالہ جواب مطلوب ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

یہ صورت معاملہ اشیاء منقولہ میں قبل از قبض ناجائز ہے،اور اشیاء غیرمنقولہ (زمین مکان،دوکان)میں مطلقا(قبل از قبض وبعد از قبض)اورمنقولہ میں بعد از قبض جائز ہے،خواہ  پہلی اجرت سے کم پر دوسرا عقد اجارہ ہو یاکہ اس کے برابر یا اس سے زیادہ اجرت پر،لیکن زیادتی کی صورت میں اضافی مقدار کا صدقہ کرنا لازم ہے،البتہ اگرمستاجر اس چیز میں معتدبہ(قابل حیثیت)ومستقل اضافہ کردے۔مثلا کرایہ پر حاصل کردہ کسی دوکان میں کوئی مشینری وغیرہ ڈال کر اصل اجرت سے زیادہ پر آگے کرایہ پر دے تو پھر اس کے لیے اضافی مقداراجرت لینا بھی جائز ہوگا،لیکن صرف پنکھےیابلب وغیرہ لگانے سے اضافی اجرت لینا درست نہ ہوگا،اس لیے کہ یہ چیزیں مستقل نہیں بلکہ دوکان یامکان کے توابع میں شمار ہوتی ہیں۔البتہ پہلے موجر کو دوبارہ عقد اجارہ پر دیناکسی بھی صورت جائز نہیں۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 91)
(للمستأجر أن يؤجر المؤجر) بعد قبضه قيل وقبله (من غير مؤجره، وأما من مؤجره فلا) يجوز وإن تخلل ثالث به يفتى للزوم تمليك المالك، وهل تبطل الأولى بالإجارة للمالك؟ الصحيح لا وهبانية.
قلت: وصححه قاضي خان وغيره. وفي المضمرات: وعليه الفتوى، وقدمنا عن البحر معزيا للجوهرة الأصح نعم، وأقره المصنف ثمة، ونقل هنا عن الخلاصة ما يفيد أنه إن قبضه منه بعد ما استأجره بطلب وإلا لا فليكن التوفيق فتأمل؛ وهل تسقط الأجرة ما دام في يد المؤجر؟ خلاف مبسوط في شرح الوهبانية
مطلب في إجارة المستأجر للمؤجر ولغيره.
(قوله للمستأجر أن يؤجر المؤجر إلخ) أي ما استأجره بمثل الأجرة الأولى أو بأنقص، فلو بأكثر تصدق بالفضل إلا في مسألتين كما مر أول باب ما يجوز من الإجارة (قوله قيل وقبله) أي فالخلاف في الإجارة كالخلاف في البيع، فعندهما يجوز، وعند محمد لا يجوز، وقيل لا خلاف في الإجارة، وهذا في غير المنقول، فلو منقولا لم يجز قبل القبض كذا في التتارخانية (قوله من غير مؤجره) سواء كان مؤجره مالكا أو مستأجرا من المالك كما يفيده التعليل الآتي؛ لأن المستأجر من المالك مالك للمنفعة.
ووقع في المنح عن الخلاصة أن المستأجر الثاني إذا آجر من المستأجر الأول يصح، وقد راجعت الخلاصة فلم أجد هذه الزيادة، وهكذا رأيت في هامش المنح بخط بعض الفضلاء أنه راجع عدة نسخ من الخلاصة فلم يجد ذلك فتنبه (قوله وإن تخلل ثالث) أي بأن استأجر من المستأجر شخص فآجر للمؤجر الأول. (قوله به يفتى) وهو الصحيح وبه قال عامة المشايخ ابن الشحنة. (قوله للزوم تمليك المالك) ؛ لأن المستأجر في حق المنفعة قائم مقام المؤجر فيلزم تمليك المالك منح.

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۵جمادی الاولی۱۴۴۱ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب