021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ادارہ کی طرف سے مہیا کردہ ادوایات کو آگے فروخت کرنا
63961خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

:میں پاکستان نیوی میں ملازم ہوں اور محکمہ کی طرف سے ہمیں میڈیکل کی مد میں دوا وغیرہ خریدنے کی اجازت ہوتی ہے (جوکہ مارکیٹ ریٹ سے سستی ہوتی ہے) لیکن ہر ماہ ہمیں اسکی ضرورت نہیں ہوتی تو ہم دوست احباب کو اپنا کاڑد دے دیتے ہیں تاکہ وہ دوا لے لیں اگرچہ نیوی کی طرف سے اس کی اجازت نہیں اور کبھی ہم خود اپنے نام سے لیکر اسےآگے فروخت کردیتے ہیں ، اب ہمارے لیے ایسا کرنا درست ہے؟دونوں صورتوں کا حکم ایک ہے یا الگ الگ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مسئولہ صورت میں ملازمین کے لئے اپنے ادارے کی قوانین کی پابندی کرنا ضروری ہے، لہٰذآپکے لئے ادارے کےقانون کے خلاف اپنے کارڈ سے دیگر کو خوراک یا ادویات دلوانا جائز نہیں ہے، جہاں تک آپکا اپنا تعلق ہے تو اُس بارے میں یہ تفصیل ہے کہ ایک شخص کواپنے ذاتی استعمال کے لئے ادارے سے جس قدر خوراک یا ادویات لینے کی اجازت ہے ، اگر وہ اپنے لیے اتنی مقدار لینے کے بعد پھر استعمال نہ ہونے کی صورت میں آگے کسی اور کو دے تو یہ اُس کے لئے جائز ہے، کیونکہ اُس نے اپنے حق کے بقدر وصول کیا ہے اور تنخواہ سے عوض ادا کرنے کی وجہ سے وہ اس کا مالک ہوگیا ہے،لہٰذا گر وہ اپنےحق کے بقدر وصول کرکے کسی اور کو دے گا تو یہ فی نفسہٖ جائز ہے،تاہم ذاتی استعمال کی ضرورت نہ ہونے کی صورت میں تجارتی مقاصد کیلے ایسا کرنے کی صرف اس صورت میں اجازت ہوسکتی ہے جبکہ ادارے کے قوانین میں اسکی اجازت ہو ،ورنہ ایسا کرنا بھی جائز نہ ہوگا ۔
حوالہ جات
[القرآن المجید: المائدة: 1] {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ} تفسير القرطبي (6/ 32) فأمر الله سبحانه بالوفاء بالعقود، قال الحسن: يعني بذلك عقود الدين وهي ما عقده المرء على نفسه، من بيع وشراء وإجارة وكراء ومناكحة وطلاق ومزارعة ومصالحة وتمليك وتخيير وعتق وتدبير وغير ذلك من الأمور، ما كان ذلك غير خارج عن الشريعة، وكذلك ما عقده على نفسه لله من الطاعات، كالحج والصيام والاعتكاف والقيام والنذر وما أشبه ذلك من طاعات ملة الإسلام. سنن الترمذي (3/ 627) المسلمون على شروطهم، إلا شرطا حرم حلالا، أو أحل حراما، هذا حديث حسن صحيح. صحيح البخاري (2/ 128) عن أنس رضي الله عنه: أن النبي صلى الله عليه وسلم أتي بلحم تصدق به على بريرة، فقال: «هو عليها صدقة، وهو لنا هدية» مجلة الأحكام العدلية (ص: 230) كل يتصرف في ملكه كيفما شاء. الدر المختار (6/ 116) (وطاب لسيده وإن لم يكن مصرفا) للصدقة (ما أدى إليه من الصدقات فعجز) لتبدل الملك، وأصله حديث بريرة «هي لك صدقة ولنا هدية»
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب