ہمارے ایک جاننے والے عزیز ہمارے یہاں آتے ہیں اور زکوٰۃ و صدقات واجبہ کا مطالبہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان پیسوں سے اپنے بچوں کو عالم بناؤں گا اور انہی کے اخراجات کیلئے زکوٰۃ چاھیے ورنہ مجھے ضرورت نہیں تو کیا ایسے شخص کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
جس شخص کے پاس زکوٰۃ کے نصاب سے کم مال موجود ہو وہ شخص ضرورت کے وقت زکوٰۃ کا سوال کرسکتا ہے ۔لہذا ایسی صورت میں اگر انکے پاس نصاب کے بقدر مال نہیں ہے تو آپ بچوں کے تعلیمی اخراجات کیلئے زکوٰۃ دے سکتے ہیں۔
واضح رہےکہ بہت سے دینی ادارے ایسے ہیں کہ جومفت دینی تعلیم فراہم کرتے ہیں ،اور ایسے مستحق طلباء کی ایک حدتک مالی مددبھی کرتے ہیں ،لہذا اس شخص کوچاہئے کہ اپنے بچوں کوکسی ایسےمستند ادارہ میں داخلہ کروادیں جہاں بلا معاوضہ معیاری دینی تعلیم دی جاتی ہو بلکہ پڑھائی کے اخراجات کے سلسلے میں وظیفےکی شکل میں مالی تعاون بھی کرتے ہیں۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (1 / 42)
واعلم أن تعلم العلم يكون فرض عين وهو بقدر ما يحتاج لدينه. وفرض كفاية، وهو ما زاد عليه لنفع غيره. ومندوبا، وهو التبحر في الفقه وعلم القلب.
الفتاوى الهندية - (5 / 377)
طلب العلم فريضة بقدر الشرائع وما يحتاج إليه لأمر لا بد منه من أحكام الوضوء والصلاة وسائر الشرائع ولأمور معاشه وما وراء ذلك ليس بفرض فإن تعلمها فهو أفضل وإن تركها فلا إثم عليه كذا في السراجية.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 339)
فمصرفه كالغنائم (هو فقير، وهو من له أدنى شيء) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) 2/ 339
والحاصل أن النصاب قسمان: موجب للزكاة وهو النامي الخالي عن الدين. وغير موجب لها وهو غيره، فإن كان مستغرقا بالحاجة لمالكه أباح أخذهما وإلا حرمه وأوجب غيرهما من صدقة الفطر والأضحية ونفقة القريب المحرم كما في البحر وغيره.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - 2 / 354
)ولا) يحل أن (يسأل) من القوت (من له قوت يومه) بالفعل أو بالقوة
البحر الرائق، دارالكتاب الاسلامي - 2 / 269
(قوله: ولا يسأل من له قوت يومه) أي لا يحل سؤال قوت يومه لمن له قوت يومه لحديث الطحاوي: «من سأل الناس عن ظهر غنى فإنه يستكثر من جمر جهنم قلت يا رسول الله وما ظهر غنى قال: أن يعلم أن عند أهله ما يغذيهم وما يعشيهم» قيدنا بسؤال القوت؛ لأن سؤال الكسوة المحتاج إليها لا يكره وقيدنا بالسؤال؛ لأن الأخذ لمن ملك أقل من نصاب جائز بلا سؤال كما قدمناه۔۔