ہمارے گھر کے بچے دوکان سے پاپڑ یا اس جیسی کھانے کی کوئی اور چیزیں خریدتے ہیں۔ پانچ یا دس روپے کا ایک لفافہ ہو تا ہے اور اس میں کھانے کی چیز مثلا: پاپڑ یا کوئی ٹافی وغیرہ ہوتی ہے اور اس کے ساتھ بعض لفافوں میں 5 یا 10 یا اس سے زیادہ روپے ہوتے ہیں اور بعض میں کوئی اور انعامی چیز کھلونا وغیرہ اور بعض میں صرف كھانے كی چیز ہوتی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح کی اشیاء کی خرید وفروخت جائز ہے یا نہیں؟ قرآن وسنت كى روشنى میں رہنمائی فرمائیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سوال میں ذکر کردہ چیز کو خریدنا اس وقت جائز ہوگا جب:
(1) اس کے خریدنے سے مقصود انعام نہ ہو، بلکہ وہ استعمال ہونے والی چیز خریدنا مقصود ہو۔
(2)اس انعام سے کسی ناقص چیز کی ترویج مقصود نہ ہو۔
(3) اس پڑیا میں موجود چیز بازاری عام قیمت سے مہنگی نہ ہو۔
لیکن عام طور پر بچوں کا مقصود انعام حاصل کرنا ہوتا ہے اور یہ چیزیں ناقص نہ بھی ہو تو ان کی قیمت عموما بازاری قیمت سے زیادہ ہوتی ہے، اس طرح سے ایک طرح کا دھوکا اور جوا وجود میں آجاتا ہے۔ اس لیے اس طرح کی انعامی لاٹری کی خرید وفروخت جائز نہیں ہے ۔
حوالہ جات
قال الله عز وجل: { يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ} [المائدة: 90]
قال العلامة القرطبي رحمه الله: قوله تعالى: (والميسر) الميسر: قمار العرب بالأزلام. قال ابن عباس: كان الرجل في الجاهلية يخاطر الرجل على أهله وماله، فأيهما قمر صاحبه ذهب بماله وأهله، فنزلت الآية. وقال مجاهد ومحمد بن سيرين والحسن وابن المسيب وعطاء وقتادة ومعاوية ابن صالح وطاوس وعلي بن أبي طالب رضي الله عنه وابن عباس أيضا: كل شي فيه قمار من نرد وشطرنج فهو الميسر، حتى لعب الصبيان بالجوز والكعاب. (تفسير القرطبي :3/ 52)
قال العلامة ابن نجيم رحمه الله: القمار من القمر الذي يزاد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا؛ لأن كل واحد من القمارين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه ،فيجوز الازدياد والنقصان في كل واحدة منهما، فصار ذلك قمارا ،وهو حرام بالنص. (البحر الرائق :8/ 554)
قال ابن عابدين رحمه الله: القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا ؛لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه، وهو حرام بالنص. (رد المحتار:6/ 403)
قال المفتي محمد تقي العثماني حفظه الله:الجوائز على شراء المنتجات:وإن النوع الأول... وإن حكم مثل هذه الجوائز أنها تجوز بشروط:
الشرط الأول: أن يقع شراء البضاعة بثمن مثله، ولايزاد في ثمن البضاعة من أجل احتمال الحصول على الجوائز ؛ وهذا لأنه...فصارت العملية قمارا.
الشرط الثاني:أن لاتتخذ هذه الجوائز ذريعة لترويج البضاعات المغشوشة؛ لأن الغش والخداع حرام لايجوز بحال.
الشرط الثالث:أن يكون المشتري يقصد شراء المنتج للانتفاع به، ولا يشتريه لمجرد ما يتوقع من الحصول على الجائزة.(بحوث في قضايا فقهية معاصرة:1/158، 159)