021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کپڑا سلوانے میں استصناع کا حکم
67856خرید و فروخت کے احکامسلم اور آرڈر پر بنوانے کے مسائل

سوال

ہماری ایک دوکان کپڑے کی ہے اور ایک ٹیلرنگ کی ہے ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ گاہک ہمیں فون کرتاہے اور کپڑے کا رنگ ، کوالٹی وغیرہ  بتا کر سلوانے کا کہہ دیتا ہے ، ہم ان کے لیے سوٹ سی لیتے ہیں ۔ کیا ایسا معاملہ کرنا درست ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں اگرآرڈر دیتے وقت ، آرڈر پر تیار کرائے جانے والے جوڑےکی خصوصیات اور اوصاف کا  مکمل تعین کرلیا جائے کہ بعد میں غلط فہمی اور جھگڑے کا امکان نہ رہے تو یہ معاملہ درست ہے۔

حوالہ جات
قال العلامة الكاساني رحمه الله: وأما شرائط جوازه[الاستصناع] فمنها: بيان جنس المصنوع، ونوعه وقدره وصفته؛ لأنه لا يصير معلوما بدونه.ومنها: أن يكون مما يجري فيه التعامل بين الناس من أواني الحديد والرصاص، والنحاس والزجاج، والخفاف والنعال، ولجم الحديد للدواب، ونصول السيوف، والسكاكين والقسي، والنبل والسلاح كله، والطشت والقمقمة، ونحو ذلك، خ. ولا يجوز في الثياب؛ لأن القياس يأبى جوازه، وإنما جوازه استحسانا ؛ لتعامل الناس، ولا تعامل في الثياب.( بدائع الصنائع:5/ 3) قال المفتي محمد تقي العثماني حفظه الله: ومقتضى هذا أن ما صرّحوا بعدم جواز الاستصناع فيه؛ لعدم التعامل، كالثياب، لو جرى فيه التعامل، جاز فيه الاستصناع. وقد حدث هذا في زماننا، إذ تجّارالثياب، ولاسيّما تجّار الأقمشةالجاهزة يستصنعونها من المعامل والمصانع، وإن المعامل إنّماتصنع الأقمشة حسب ماتتسلّم الطلبات منهم، فينبغي جواز ذلك، والله سبحانه وتعالى أعلم.(فقه البيوع:1/599-600)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / شہبازعلی صاحب