021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیٹے کا والد کی زندگی میں اپنے حصے کا مطالبہ کرنا
70248جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

مجھے وراثت کے معاملے میں فتوی درکار ہے،میرے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی ہے،ایک بیٹے کا انتقال ہوگیا ہے،اس کے بچے ہیں،میرا مکان بکا ہے جس کے پیسے تقریبا سترہ لاکھ روپے مجھے ملے ہیں،میرے تمام بچوں میں سے ایک بیٹا اپنا حصہ مانگنے پر اصرار کررہا ہے،کیا میں اپنی زندگی میں اسے حصے دے دسکتا ہوں،میرا کل اثاثہ یہی ہے،میرا کوئی گھر نہیں ہے اور نہ کوئی بیٹا مجھے اور میری بیوی کو ساتھ رکھنے پر تیار ہے،نہ ہماری کفالت کے لیے تیار ہے،اس صورت حال میں شریعت کا میرے لیے کیا حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مرنے سے پہلے ہر شخص  اپنی تمام جائیداد اور دیگر املاک کا تنہا مالک ہے اور اس میں تصرف کا اسے مکمل اختیار حاصل ہے، اس میں بچوں اور دیگر وارثوں کا کوئی حق نہیں اور نہ ہی کوئی اولاد اُس شخص سے اْس کی زندگی میں اپنے حصہ کا مطالبہ کرسکتی ہے، کیونکہ میراث کا تعلق آدمی کے مرنے کے بعد سے ہے،لہذا آپ کے بیٹے کے اس مطالبہ کی شرعا کوئی حیثیت نہیں اور اس کے مطالبے کو پورا کرنا شرعا آپ پر لازم نہیں۔

 تاہم اگر کوئی شخص اپنی مرضی اور خوشی سے اپنی جائیداد اولاد میں تقسیم کرنا چاہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اپنی بقیہ زندگی کیلئے جو کچھ مال رکھنا چاہے رکھ لے، تاکہ بعد میں کسی کا محتاج نہ ہونا پڑے، پھر بیوی اگر حیات ہو تو بقیہ مال میں سےکم از کم آٹھواں حصہ بیوی کو دیدے، اس کے بعد جو کچھ بچے اس میں افضل و بہتر یہ ہے کہ تمام اولاد کو چاہے بیٹا ہو یا بیٹی برابر دیا جائے، بغیر کسی معقول وجہ کے محض نقصان پہنچانے کی نیت سے بعض کو کم اور بعض کو زیادہ دینا ناجائز ہے۔

تاہم اگرکمی بیشی کی کوئی معقول وجہ ہو،جیسےاولاد میں سے کسی کا زیادہ تنگدست ہونا، زیادہ عیالدار ہونا،بعض کا خدمت گار ہونا اور بعض کا نافرمان ہوناوغیرہ توایسی صورت میں جو زیادہ تنگدست،عیالدار یا خدمت گار ہو اسے زیادہ دیا جاسکتا ہے،لیکن کسی کو بالکل محروم کردینا جائز نہیں۔

اورچونکہ اس طرح زندگی  میں جائیداد کی تقسیم  شرعاہبہ(یعنی  گفٹ) ہے،اس لیے اس میں یہ بھی ضروری ہے کہ والد اولاد میں سے جس کو جو مال دے وہ اس کے نام کرکے باقاعدہ اس کے قبضے میں بھی دے،کیونکہ اگر صرف نام کروایا اور قبضہ نہیں دیا تو ایسا ہبہ تام نہیں ہوگا اور والد کے انتقال کے بعد ایسا مال بھی میراث کا حصہ بن کر سب ورثہ میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔

حوالہ جات
"درر الحكام شرح مجلة الأحكام " (3 / 210):
"كل يتصرف في ملكه المستقل كيفما شاء أي أنه يتصرف كما يريد باختياره أي لا يجوز منعه من التصرف من قبل أي أحد هذا إذا لم يكن في ذلك ضرر فاحش للغير . انظر المادة ( 1197 ) . كما أنه لا يجبر من أحد على التصرف أي لا يؤمر أحد من آخر بأن يقال له : أعمر ملكك وأصلحه ولا تخربه ما لم تكن ضرورة للإجبار على التصرف ".
"رد المحتار" (4 / 444(:
 "ورد في الحديث أنه - صلى الله عليه وسلم - قال «سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرا أحدا لآثرت النساء على الرجال» رواه سعيد في سننه وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم» فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة.
 وفي الخانية ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى".
"البحر الرائق شرح كنز الدقائق ": (ج 20 / ص 110) :
"يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين وإن وهب ماله كله الواحد جاز قضاء وهو آثم، كذا في المحيط.
 وفي فتاوى وفي الخلاصة المختار التسوية بين الذكر والأنثى في الهبة, ولو كان ولده فاسقا فأراد أن يصرف ماله إلى وجوه الخير ويحرمه عن الميراث, هذا خير من تركه؛ لأن فيه إعانة على المعصية، ولو كان ولده فاسقا لا يعطي له أكثر من قوته".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

18/صفر1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب