021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تین ہزارکی آبادی میں جمعہ کےجوازکافتوی
70337نماز کا بیانجمعہ و عیدین کے مسائل

سوال

ایک عالم کےمطابق بوڑی ساغری{شکردرہ کوہاٹ} کےقریب قریب تمام گاوں کوملاکران کی آبادی تین ہزارہے اورآبادی کےتین ہزارہونےسےجمعہ جائزہوجاتاہے،حالانکہ بوڑی کی اپنی آبادی بہت کم ہے۔مفتیان کرام اگرایسااحناف کاکوئی قول ہواورجواز کافتوی ہوتوہمیں دےکرممنون فرمائیں۔

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کسی عالم کایہ کہناکہ تمام گاؤں کی آبادی مجموعی طورپر تین ہزارہے اورآبادی کےتین ہزارہونےسےجمعہ جائزہوجاتاہے،اس کےبارےمیں یادرکھیں کہ شرعاجمعہ کے جائزہونےکے لئے افراد کی کوئی خاص تعیین نہیں کی گئی،اس کے لئے ضروری ہے کہ مصرجامع(بڑاشہر)ہویاقریہ کبیرہ(بڑی بستی)جس میں بازاراورضرورت کی ساری چیزیں مہیاہوں،اس کامدارعرف پرہوتاہے(جیسےاوپرتفصیل ذکرکی گئی ہے)البتہ مصراورقریہ کبیرہ کااندازہ افرادکی تعدادسے بھی لگایاجاسکتاہےاوراس تعداد میں بچے اورخواتین بھی شامل ہوں گے،مثلااگر2500 سے 3000 تک کی آبادی ہوتوعام طورپردکانیں اورضرورت کی ساری چیزیں بھی مہیاہوتی ہیں،اس میں جمعہ درست ہوگا۔اوراگرآبادی توزیادہ ہےلیکن ضرورت کی  ساری چیزیں موجودنہیں تواس میں جمعہ درست نہ ہوگا۔

مذکورہ مسئلہ میں تمام گاوں کی مجموعی آبادی کونہیں دیکھاجائےگا،بلکہ جمعہ کےجوازکےلیےہرگاؤں کی الگ الگ آبادی کودیکھاجائےگا،چونکہ ہرگاؤں کی الگ الگ آبادی کافی  کم ہےاورضرورت کی چیزیں بھی دستیاب نہیں،اس لیےجمعہ جائزنہیں ہوگا۔

حوالہ جات
"منھاج السنن شرح جامع السنن للامام الترمذی" 47/3 :قلت والمراد من الاسواق الحوانیت التی تکفی لحوائج ھذالمقام ورساتیقھا،لاالاسواق المعروفۃ فی ھذالزمان فانھالم تکن فی الحرمین الشریفین ایضا فی تلک الأعصار۔(بحوالہ " فتاوی فریدیہ 3"/ 165)
"الکوکب الدری "1/413 :ولیس ھذاکلہ تحدیدالہ بل اشارۃ الی تعیینہ وتقریب لہ الی الاذھان وحاصلہ ادارۃ الامر علی رأی اھل کل زمان فی عدھم المعمورۃ مصرافماھومصرفی عرفہم جازت الجمعۃ فیہ ومالیس بمصرلم یجز فیہ الاان یکون فناء المصر۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی

02/ربیع الاول1442 ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب