021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ہوائی جہاز میں بیٹھ کرنمازپڑھنا،یاجمع بین الصلوتین کرنا
71039نماز کا بیانسواری پر نماز پڑھنے کا بیان

سوال

محترم جناب مفتی صاحب

السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاته

1) میں شاہین ائیر میں کپتان ہوں۔ دوران سفر جب نماز کا وقت آتا ہے تو میں مسافروں کے لیے اعلان کرتا ہوں کہ اپنی نشستوں پر بیٹھے ہوئےفلاں جانب رخ کر کے نماز ادا کر لیں۔ اسکی وجوہات یہ ہیں: 

  1. جہاز میں کھڑے ہو کے نماز پڑھنے کی جگہ صرف دروازوں کے سامنے ہوتی ہے جہاں جہاز کا میزبان عملہ اپنے کام میں مصروف ہوتا ہے اور سیکیورٹی کے خدشات کی وجہ سے وہاں کھڑاہونا یا نماز پڑھنا بالکل منع ہے۔ میں خود کپتان ہوتے ہوئےبھی وہاں نماز کھڑے ہو کے نہیں پڑھ سکتا۔ 
  2. یہاں کھڑے ہونے سے عملے کے ارکان کے کاموں میں بھی شدید رکاوٹ ہوتی ہے۔ عملے کو ایک خاص دورانیے میں تمام مسافروں کو کھانا کھلانا اور پھر برتن جمع کرنا ہوتے ہیں۔ 
  3. اسی جگہ عملے کی لڑکیاں بھی کام سے فارغ ہو کر اپنا کھانا پینا اور آرام کرتی ہیں۔ 
  4.  مسافروں کی بڑی تعداد کا  ایک وقت میں  کھڑے  ہوکر نماز پڑھنا سخت انتظامی دشواری کا سبب بنتا ہے۔

ان حالات میں کیا میرا یہ اعلان کرنا درست ہے؟

2) دوسرا  مسئلہ  یہ  ہے  کہ  ہر وقت قبلہ سامنے کی طرف نہیں ہوتا اور نشست میں بیٹھے ہوئےقبلہ رخ ہونا کبھی ممکن نہیں بھی ہوتا۔ راولپنڈی عسکری4 کے مولوی صاحب کے نزدیک یہ معذوری کی ایک شکل ہے اور بیٹھ کر قبلہ رخ ہؤے بغیر نماز ہو جائیگی۔ آپ کیا کہتے ہیں؟

مورخہ 4 جولائی 2019ء کو قطر ائیر لائن کے ذریعہ امسٹرڈیم سے کراچی کا سفر ہوا۔ نماز کا وقت آنے پر اسکرین پر  یہ پیغام چلنا شروع ہوا کہ فجر کی  نماز کا وقت ہوگیا ہے، مسافر حضرات اپنی نشست پر ہی نماز ادا کرلیں۔(احمد افنان.مجیب)

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مسافر کی پہلی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اگر وقت میں گنجائش ہو تو نماز زمین پر پڑھ کر جہاز میں سوار ہو، یا جہاز سے اتر کر زمین پر پڑھے۔اگر زمین پرپڑھنا ممکن نہ ہو ) یعنی اگر زمین پر اترنے کا انتظار کرے گا تو نماز کا وقت نکل جائے گا)تو ہوائی جہاز میں کھڑے ہو کر پڑھنے کی کوشش کرے۔ فضائی میزبان سےبات کرے اورکوشش کرےکہ فرض کھڑے ہو کرپڑھنے کی اجازت مل جائے۔بعض ائیرلائینزمیں نمازکی الگ جگہ مقررہوتی ہے جہاں بسہولت کھڑے ہوکرنمازاداکی جاسکتی ہے۔

البتہ اگر سوال میں مذکوراعذار کی وجہ سے کھڑے ہو کر پڑھنا ممکن نہ ہو، یا اس کی اجازت نہ ہو تو دو میں سے کسی بھی ایک صورت پر عمل کرے:

  1. ایسی مجبوری میں ائمہ ثلاثہ اور جمہور ائمہ کے فقہی موقف پر عمل کرنے کی گنجائش ہے۔مسافر ایسی صورت میں جمع بین الصلاتین ( یعنی ظہر و ٕعصر کو ملا کر ظہر یا عصر کے وقت میں اور مغرب و عشاء کو ملا کر مغرب یا عشاء کےوقت میں پڑھناکرسکتاہے(۔ لہذا پرواز سے پہلے یا بعد میں جمع کی نیت سے مذکورہ دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھ لے۔
  2. نشست پر بیٹھ کر نماز ادا کرلے۔ فقہاء کرام کے نزدیک ایسے عذر میں فرض و واجب نماز بھی سیٹ پر بیٹھ کرادا ہوجائے گی ، بشرطیکہ کم از کم سینہ کا رخ قبلہ کی جانب ہو۔ اگر جہاز کا رخ تبدیل ہوجائے اور مسافر کو اس تبدیلی کا علم ہو، تو اس پر بھی لازم ہوگا کہ اپنا رخ قبلہ کی جانب کرلے ۔البتہ اگر اس وقت رخ کی تبدیلی کا علم نہ ہو، تو نماز درست ہوجائے گی۔نوافل اور سنتیں بہرحال سیٹ پر سیدھے بیٹھے بیٹھے ادا کی جاسکتی ہیں، ان میں قبلہ رو ہونااور جہاز کا رخ بدلنے پر قبلہ کی جانب پھرنا شرط نہیں۔سفر میں رسول اللہ ﷺ کی سواری جس رخ پر ہوتی ، اسی رخ پر بیٹھ کر نوافل ادا فرماتے تھے۔

نیزجہاز میں عام حالات میں جبکہ قبلہ مسافر کے سامنے، دائیں یا بائیں جانب ہو توسیٹ پر بیٹھے بیٹھے بھی قبلہ رو ہونا ممکن ہوتا ہے۔لہذا ان صورتوںمیں قبلہ رخ ہونا شرط ہے، اس کے بغیر نماز درست نہیں ہوگی۔البتہ اگر کوئی ایسی صورت پیش آجائے کہ قبلہ بالکل پیچھے کی جانب ہے اور اس جانب رخ کرکےنما ز ادا کرنا ممکن نہیں، تو صرف اس خاص صورت میں قبلہ رو ہونا ضروری نہیں ہوگا۔ مسافر اپنےسامنے کی جانب رخ کر کےفرض اورواجب نماز پڑھ سکتا ہے۔ فقہاء کرام نے ایسی مجبوری کی صورتوں میں حسب قدرت قبلہ رخ ہونے کی اجازت دی ہے۔

اوپر ذکر کردہ صورتوں میں عالم عربی کے معاصر فقہاء اور فقہی مجالس کی بھی یہی آراء ہیں۔ مثلا الشیخ صالح المنجد، سعودی عرب اور امارات کا مرکزی دار الافتاء، شیخ زندانی یمنی کادار الافتاء جامعہ الایمان۔ ذیل میں ان سب کے جواب اور دلائل کا لنک دیا گیا ہے،مسلم ممالک کی ائیر لائنز کو نماز کے وقت میں یہ اعلان کرنا چاہیے:

نمازِ)مثلا فجر یا ظہر)کا وقت داخل ہوچکا ہے۔ اس وقت قبلہ ہم سے )مثلا دائیں یابائیں)جانب پر ہے۔ لہذا تمام مسافر اپنی سیٹ پر تشریف رکھتے ہوئے)دائیں یا بائیں(سمت کی جانب اپنا رخ تھوڑا سے موڑ کر نماز ادا کرلیں۔

یا

قبلہ پیچھے کی جانب ہے ۔سیٹ پر بیٹھے ہوئے قبلہ رخ ہونا ممکن نہیں، لہذا تمام مسافر سیٹ پر تشریف رکھتے ہوئے سامنے کی جانب اپنا رخ کرکے نمازِادا کرلیں۔"

حوالہ جات
قال الله تعالى:فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ (سورة التغابن:16)
تفسير النسفي = مدارك التنزيل وحقائق التأويل (3/ 494):-
{فاتقوا الله مَا استطعتم} جهدكم ووسعكم قيل هو تفسير لقوله حق تقاته
صحيح البخاري ـ م م (2/ 48):-
باب إذا لم يطق قاعدا صلى على جنب وقال عطاء إن لم يقدر أن يتحول إلى القبلة صلى حيث كان وجهه
1117 - حدثنا عبدان عن عبد الله عن إبراهيم بن طهمان قال حدثني الحسين المكتب عن ابن بريدة عن عمران بن حصين رضي الله عنه قال كانت بي بواسير فسألت النبي صلى الله عليه وسلم عن الصلاة فقال صل قائما فإن لم تستطع فقاعدا فإن لم تستطع فعلى جنب
سنن الترمذي لمحمد الترمذي (2/ 266):-
411 - حدثنا يحيى بن موسى حدثنا شبابة بن سوار حدثنا عمر بن الرماح [ البلخي [ عن كثير بن زياد عن عمرو بن عثمان بن يعلى بن مرة عن أبيه عن جده Y أنهم كانوا مع النبي -صلى الله عليه وسلم- في مسير، فانتهوا إلى مضِيقٍ، وحضرت الصلاة، فمُطِروا السماء من فوقهم، والبلَّةُ من أسفل منهم، فأذَّن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وهو على راحلته وأقام أو أقام، فتقدم على راحلته فصلَّى بهم يومئ إيماءً يجعل السجود أخفض من الركوع».  قال الترمذي: "والعمل على هذا عند أهل العلم". وقال النووي: "وهذه الصلاة كانت فريضة، ولهذا أذّن لها وصلاَّها على الدَّابة للعذر".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 40):-
(ولو صلى على دابة في) شق (محمل وهو يقدر على النزول) بنفسه (لا تجوز الصلاة عليها إذا كانت واقفة إلا أن تكون عيدان المحمل على الأرض) بأن ركز تحته خشبة (وأما الصلاة على العجلة إن كان طرف العجلة على الدابة وهي تسير أو لا) تسير (فهي صلاة على الدابة، فتجوز في حالة العذر) المذكور في التيمم (لا في غيرها) ومن العذر المطر، وطين يغيب فيه الوجه وذهاب الرفقاء، ودابة لا تركب إلا بعناء(قوله ولو صلى على دابة إلخ) شروع في صلاة الفرض والواجب على الدابة كما سينبه عليه بقوله هذا كله في الفرائض.
واعلم أن ما عدا النوافل من الفرض والواجب بأنواعه لا يصح على الدابة إلا لضرورة؛ كخوف لص على نفسه أو دابته أو ثيابه لو نزل، وخوف سبع وطين ونحوه مما يأتي؛ والصلاة على المحمل الذي على الدابة كالصلاة عليها فيومئ عليها بشرط إيقافها جهة القبلة إن أمكنه، وإلا فبقدر الإمكان. وإذا كانت تسير لا تجوز الصلاة عليها إذا قدر على إيقافها وإلا بأن كان خوفه من عدو يصلي كيف قدر كما في الإمداد وغيره، ولا إعادة عليه إذا قدر بمنزلة المريض خانية.
المبسوط للسرخسي (1/ 250):-
قال: (ولا يصلي المسافر المكتوبة على الدابة من غير عذر) ؛ لأن المكتوبة في أوقات محصورة فلا يشق عليه النزول لأدائها فيها بخلاف التطوع، فإنه ليس بمقدر بشيء، فلو ألزمناه النزول لأدائها تعذر عليه النزول لأدائها، تعذر عليه إذا ما ينشطه فيه من التطوعات أو ينقطع سفره، وكذلك ينزل للوتر عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى -؛ لأنها واجبة وعندهما له أن يوتر على الدابة لما روي «عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه كان مع أصحابه في سفر فمطروافأمر مناديا ينادي حتى نادى صلوا على رواحلكم، فنزل ابن رواحة فطلب موضعا يصلي فيه، فأخبر بذلك رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فدعاه، فلما أقبل إليه فقال: أما إنه يأتيكم وقد لقن حجته قال: ألم تسمع ما أمرت به أما لك في أسوة، قال: يا رسول الله أنت تسعى في رقبة قد فكت، وأنا أسعى في رقبة لم يظهر فكاكها، قال: ألم أقل لكم إنه يأتيكم وقد لقن حجته، ثم قال له: إني لأرجو على هذا أن أكون أخشاكم لله تعالى» فقد جوز لهم الصلاة على الدابة عند تعذر النزول بسبب المطر فكذلك بسبب الخوف من سبع أو عدو، ولأن مواضع الضرورة مستثناة.
البناية شرح الهداية (2/ 545):-
وفي " خلاصة الفتاوى ": أما صلاة الفرض على الدابة لعذر فجائزة، ومن الأعذار المطر عن محمد إذا كان الرجل في السفر فأمطرت السماء لم يجد مكانا ما يشاء ينزل للصلاة فإنه يقف على الدابة مستقبل القبلة ويصلي بالإيماء إذا أمكنه إيقاف الدابة، فإن لم يمكنه يصلي مستدبر القبلة، وهذا إذا كان الطين بحال يصيب وجهه، فإن لم تكن هذه المثابة لكن الأرض ندية صلى هنالك ثم قال وهذا إذا كانت الدابة تسير بنفسها، أما إذا سيرها صاحبها فلا يجوز التطوع ولا الفرض. ومن الأعذار اللص والمرض، وأما في البادية فتجوز ذلك كذا ذكر صاحب " الخلاصة "، ومن الأعذار أن تكون الدابة جموحا، ولو نزل لا يمكنه الركوب ومن الأعذار كون المسافر شيخا كبيرا لا يجد من يركبه إذا نزل، وفيها الخوف من السبع. وفي المحيط تجوز الصلاة على الدابة في هذه الأحوال ولا تلزمه الإعادة بعد زوال العذر.
فتح القدير للكمال ابن الهمام (1/ 134):-
وخائف السبع والعدو والعطش عاجز حكما .
(قوله وخائف السبع والعدو والعطش) على نفسه أو دابته أو رقيقه عاجز حكما فيباح له التيمم مع وجود ذلك الماء، وكذا إذا خاف الجوع بأن كان محتاجا إلى الماء للعجين، أما إن احتاج إليه للمرقة فلا يتيمم، لكن هل يعيد إذا أمن بالوضوء؟ قال في النهاية: قلت جاز أن تجب الإعادة على الخائف من العدو بالوضوء لأن العذر من قبل العباد اهـ.
الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص: 64):-
القاعدة الرابعة: المشقة تجلب التيسير
واعلم أن أسباب التخفيف في العبادات وغيرها سبعة:
الأول السفر، وهو نوعان:
والثاني ما لا يختص به، والمراد به، مطلق الخروج عن المصر، وهو ترك الجمعة والعيدين والجماعة، والنفل على الدابة،...والقعود في صلاة الفرض والاضطجاع فيها، والإيماء،...
السادس: العسر وعموم البلوى؛ كالصلاة مع النجاسة المعفو عنها كما دون ربع الثوب من مخففة وقدر الدرهم من المغلظة، ونجاسة المعذور التي تصيب ثيابه وكان كلما غسله خرجت.
  1. وإباحة النافلة على الدابة خارج المصر بالإيماء.وفيه في رواية عن أبي يوسف رحمه الله وإباحة القعود فيها بلا عذر
ووسع أبو حنيفة رحمه الله في العبادات كلها فلم يقل: إن مس المرأة والذكر ناقض، ولم يشترط النية في الطهارة ولا الدلك،
... وجواز صلاة الفرض في السفينة قاعدا مع القدرة على القيام لخوف دوران الرأس.
 الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 102):-
ويلزم استقبال القبلة عند الافتتاح وكلما دارت،
(قوله: ويلزم استقبال القبلة إلخ) أي في قولهم جميعا بحر، وإن عجز عنه يمسك عن الصلاة إمداد عن مجمع الروايات ولعله يمسك ما لم يخف خروج الوقت لما تقرر من أن قبلة العاجز جهة قدرته، وهذا كذلك وإلا فما الفرق فليتأمل،
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 410):-
وينبغي أن يتوجه إلى القبلة كيفما دارت السفينة سواء كان عند الإفتتاح أو في خلال الصلاة لأن التوجه فرض عند القدرة وهذا قادر اهـ كذا في الشرح قال بعض الحذاق المتبادر أن لزوم التوجه منوط بالقدرة عليه كما يشير إليه كلام المضمرات والاسبيجابي إذ الاستقبال قد يسقط للعذر ولو عند الإمكان كما في الخائف من عدوه عدم الإمكان أولى والعلامة الأكمل لم يطلق لزوم الإستقبال بل قيد بالقدرة وعند عدم القدرة على الشيء كيف يتحقق لزومه وإلى ما ذكرنا يشير كلام الدرر حيث قال لأنه يمكنه الإستقبال من غير مشقة إذ مفهومه أنه عند عدم الإمكان وعند المشقة لا يلزمه الاستقبال ومفاهيم الكتب حجة كما لا يخفى وما في مجمع الروايات أنه إن عجز يمسك عن الصلاة يمكن حمله على حالة الرجاء اهـ أي رجاء زوال العذر قبل الوقت فتأمل اهـ
الموسوعة الفقهية الكويتية (25/ 75):-
في السفينة، فإن هبت الريح وحولت السفينة فتحول وجهه عن القبلة وجب رده إلى القبلة ويبني على صلاته؛ لأن التوجه فرض عند القدرة وهذا قادر. بهذا قال جمهور الفقهاء (1) .
ويرى الحنابلة في وجه أنه لا يجب أن يدور المفترض إلى القبلة كلما دارت السفينة كالمتنفل (2) .
هذا وصرح الحنابلة بأن الملاح لا يلزمه الدوران إلى القبلة إذا دارت السفينة عنها وذلك لحاجته لتسيير السفينة (3) . وللتفصيل في الأحكام المتعلقة بالموضوع واستقبال المتنفل على السفينة (ر: صلاة. نفل) .
المغني لابن قدامة (2/ 200):-
جملة ذلك أن الجمع بين الصلاتين في السفر، في وقت إحداهما، جائز في قول أكثر أهل العلم.
وممن روي عنه ذلك سعيد بن زيد، وسعد، وأسامة، ومعاذ بن جبل، وأبو موسى، وابن عباس، وابن عمر. وبه قال: طاوس، ومجاهد، وعكرمة، ومالك، والثوري، والشافعي، وإسحاق، وأبو ثور، وابن المنذر.
الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (2/ 1372):-
مشروعية الجمع: يجوز عند الجمهور غير الحنفية (3) الجمع بين الظهر والعصر تقديماً في وقت الأولى، وتأخيراً في وقت الثانية، والجمعة كالظهر في جمع التقديم، وبين المغرب والعشاء تقديماً وتأخيراً أيضاً في السفر الطويل كما في القصر 
http://www.fikhguide.com/tourist/prayer/214
https://islamqa.info/ar/82536
http://www.awqaf.gov.ae/Fatwa.aspx?SectionID=9&RefID=804
http://www.jameataleman.org/main/articles.aspx?selected_article_no=1329&search=1
 
 

احمد افنان

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

22 جمادى الاولى  1442ھ

 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احمد افنان

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب