021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
رخصتی سے قبل طلاق کی صورت میں مہر کا حکم
70554نکاح کا بیانجہیز،مہر اور گھریلو سامان کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے  کے بارے میں کہ آج سے ڈھائی سال  قبل میرا  ایک لڑکی سے نکاح ہوا بعوض نقد تیس ہزار روپے حق مہر۔  اس کے علاوہ دس تولہ سونا جو کہ میری طرف سے بطور گفٹ کے تھا  ، ابھی تک رخصتی نہیں ہوئی کہ اب لڑکی والوں کی طرف سے عليحدگی کا مطالبہ کیاگیا ہے۔اب پوچھنا یہ ہے کہ قبل از رخصتی  طلاق کی صورت میں لڑکی کو  حق مہر ادا کرنا ہوگا یا نہیں ؟ادائیگی کی صورت میں کتنا مہر ادا کرنا ہوگا؟نیز: سونا جو میری ملکیت میں ہے، اس میں لڑکی کا کوئی حصہ بنتا ہے  یا نہیں؟

نوٹ: دس تولہ سونا مہر کا حصہ ہر گز نہیں اورنہ ہی لڑکی والوں کی طرف سے اس کی ڈیمانڈ تھی، بلکہ میری طرف سے گفٹ تھااورابھی اس کی ادائیگی بھی نہیں ہوئی ہے۔

تنقیح:سائل سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اس مدت میں خلوت بھی نہیں ہوئی ہے۔

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

          قبل از رخصتی طلاق کی صورت میں عورت کو متعین مہر کا آدھا حصہ دینا ضروری ہے،اگر مکمل مہر ادا کردیا گیا ہو تو آدھا واپس بھی لیا جا سکتا ہے اور مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق دس تولہ سونا آپ ہی کا ہے،اس میں لڑکی کا کوئی حق نہیں بنتا۔

حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفي رحمہ اللہ: (و) يجب (نصفه بطلاق قبل وطء أو خلوة) فلو كان نكاحه على ما قيمته خمسة كان لها نصفه ودرهمان ونصف(وعاد النصف إلى ملك الزوج بمجرد الطلاق إذا لم يكن مسلما لها، (وإن) كان (مسلما) لها لم يبطل ملكها منه بل (توقف) عوده إلى ملكه (على القضاء أو الرضا.)       )الدر المختار مع رد المحتار:3 /104)
قال العلامۃ الکاسانی رحمہ اللہ :وبيان هذه الجملة أن المهر المسمى إما أن يكون دينا, وإما أن يكون عينا، وكل ذلك لا يخلو إما أن يكون مقبوضا، وإما أن يكون غير مقبوض، فإن كان دينا فلم يقبضه حتى طلقها قبل الدخول بها سقط نصف المسمى بالطلاق، وبقي النصف، هذا طريق عامة المشايخ.       (بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع:2 /296)
قال ابن الہمام رحمہ اللہ : قوله: (وإن طلقها قبل الدخول والخلوة): أي بعدما سمى (فلها نصف نصف المہر.)    (فتح القدیر3 /322) 
قال العلامۃ الحصکفي رحمہ اللہ:(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به.)    (الدر المختار مع رد المحتار:2 /581)
قال ابن الہمام رحمہ اللہ : قوله: (وتصح بالإيجاب والقبول إلخ): قال صاحب النهاية: أي تصح بالإيجاب وحده في حق الواهب، وبالإيجاب والقبول في حق الموهوب له؛ لأن الهبة عقد تبرع، فيتم بالمتبرع، فصار هو عندنا بمنزلة الإقرار والوصية، ولكن لا يملكه الموهوب له، إلا بالقبول والقبض.   (فتح القدیر :9 /19) 
  قال الإمام  زین الدین الزیلعی رحمہ اللہ:وجه الاستحسان أن القبض كالقبول في الهبة، ولهذا لا يملك بها قبله ويغني عن القبول.     (تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق:5 /92)

سعد خان 

دار الافتاء جامعہ الرشید کراچی

22 /3/ 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد خان بن ناصر خان

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب