70622 | نماز کا بیان | مسبوق اور لاحق کے احکام |
سوال
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ
وتر کی جماعت میں امام کے ساتھ تیسری رکعت میں شریک ہونے والا شخص امام کےسلام پھیرنے کے بعد کھڑا ہوکراپنی تیسری رکعت میں دعائے قنوت پڑھے گا یا نہیں؟
کیونکہ اس نے امام کے پیچھے جب دعائے قنوت پڑھی تھی وہ امام کی تو تیسری رکعت تھی لیکن اس شخص کی پہلی رکعت تھی۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اس شخص کی دعائے قنوت ہوگئی ہے،لہذا اس کے لیے دوبارہ پڑھنا درست نہیں کیونکہ امام کےسلام پھیرنے کے بعد جن دو رکعتوں کی اس نے قضا کرنی ہے ،وہ قراءت اور قنوت کے حق میں پہلی شمار ہوتی ہیں اس لیے ان میں دعائے قنوت نہیں پڑھی جائے گی۔
حوالہ جات
و أ ما المسبوق فیقنت مع إمامہ فقط،و یصیر مدرکا بإدراک رکوع الثالثۃ۔
(الدر المختار مع رد المحتار: 448/2)
قولہ(فیقنت مع إمامہ فقط)لأنہ آخر صلاتہ،وما یقضیہ أولھا حکما فی حق القراءۃ،وما أشبھھا ،و ھو القنوت،وإذا وقع قنوتہ فی موضعہ بیقین،لا یکرر؛ لأن تکرارہ غیر مشروع۔
(رد المحتارعلی الدر المختار:448/2)
المسبوق یقنت مع إمامہ، ولا یقنت بعدہ،کذا فی المنیۃ۔فإذا قنت مع الإمام،لا یقنت ثانیا فیما یقضی،کذا فی المبسوط السرخسی،فی قولھم جمیعا، کذا فی المضمرات۔
(الفتاوی الھندیۃ : 123/1)
المسبوق برکعتین فی الوتر فی شھر رمضان ، إذا قنت مع الإمام فی الرکعۃ الأخیرۃ
من الإمام ،حیث لا یقنت فی الرکعۃ الأخیرۃ إ،ذا قام إلی القضاء فی قولھم جمیعا۔
(البحر الرائق : 72/2)
وأجمعوا على أن المسبوق بركعتين إذا قنت مع الإمام في الثالثة لا يقنت مرة أخرى.
(فتح القدیر:1/429)
نصیب اللہ
دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی
2 ربیع الثانی 1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | نصیب اللہ بن محمد اکبر | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |