021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عوام کے لیے راشن سسٹم کا ایک طریقہ کار
72732خرید و فروخت کے احکامبیع فاسد ، باطل ، موقوف اور مکروہ کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں  مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک صاحب نے عوام الناس اور نادار لوگوں کے لیے راشن سسٹم متعارف کیا ہے۔ ترتیب اس کی یہ ہے کہ پہلے ممبر شپ لینی پڑتی ہے،جس کی فیس 600 روپیہ ہے۔ پھر آپ کو 2 ممبر لانے پڑیں گے۔جب وہ بھی یہ ممبر شپ فیس جمع کرادیں،تو آپ کو 1000 کا راشن دیا جائے گا۔ تین ماہ کے لیے یہ سہولت ہوگی،یعنی 2 ممبر لانے کے بعد آپ کو 3000 کا راشن ملے گا،جو کہ ہر ماہ 1000 کا دیا جائے گا۔پھر 3 ماہ بعد آپ کو یہ 600 فیس دوبارہ ادا کرنی ہوگی اور وہ 2 ممبر مزید اپنے کارڈ پر 2 ممبر لائیں گے اور ان کو بھی ایسے ہی ہزار کا راشن ہر ماہ دیا جائے گا جوکہ 3 ماہ تک رہے گا اور یہ سرکل ایسا ہی چلتا رہے گا کہ ہر ممبر 2 ممبر لائے گا اور راشن اٹھاتا جائے گا۔کیا اس طرح کا معاملہ کرنا ٹھیک ہے؟ براہ کرم تسلی بخش جواب دے کر ممنون فرمائیں۔ شکریہ

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں چھ سو روپے کی ممبر شپ لینا دراصل تین ہزار روپے کی مالیت کے بدلے  ملنے والے  راشن کی پیشگی ادائیگی ہے جسے ہر ماہ قسط وار ادا کیا جائے گا۔جس میں  مزید دو ممبر لانے اور ان کا ممبر بننے کی شرط لگانا درست نہیں۔یہ شرطِ فاسدہے جس کی وجہ سے یہ معاملہ ناجائز ہوگیا ہے۔

اس معاملے کا درست طریقہ یہ ہے کہ 600 روپے کی ممبر شپ کے بدلے ہزار روپے کا راشن دے

دینا چاہیےاور اس کے بعد الگ معاہدہ کرنا چاہیے کہ ایک ممبر لاؤ گے تو ہزار کا راشن ملے گا،دو لاؤ گے تو  دو  

ہزار کاملے گا۔یوں پہلا عقد خریدوفروخت کا جبکہ دوسرا دلالی کاہوگا،لیکن ایک معاملہ کو دوسرے کے ساتھ مشروط کرنا  شرعاً درست نہیں۔یہ صفقہ فی صفقہ ہو جاتا ہے،جو کہ مفسد ہے۔

یاد رہے کہ آج کل نادار یا بیروزگار  لوگوں کی مدد کے نام سےجو مختلف سکیمیں چل رہی  ہیں،وہ عام طور

پر جعل سازی اور دھوکہ دہی پر مبنی ہوتی ہیں۔ ان کے جھانسے میں نہ آنا چاہیے۔اگرکسی کا واقعتاً نادار لوگوں کی مدد کرنے کا ارادہ ہو تو شریعت کے اصولوں کے مطابق کرنا چاہیے۔

حوالہ جات
قال العلامۃ المرغینانی رحمہ اللہ تعالی : كل شرط لا يقتضيه العقد، وفيه منفعة لأحد المتعاقدين، أو للمعقود عليه، وهو من أهل الاستحقاق: يفسده.(الھدایۃ:3/48)
قال العلامۃ علاؤ الدین الکاسانی رحمہ اللہ  :وإن اشترى بشرط الترك؛ فالعقد فاسد بالإجماع؛ لأنه شرط لا يقتضيه العقد، وفيه منفعة لأحد المتعاقدين، ولا يلائم العقد ،ولا جرى به التعامل بين الناس، ومثل هذا الشرط مفسد للبيع. (بدائع الصنائع:5/173)
قال العلامۃ السرخسی رحمہ اللہ تعالی :وإذا اشترى بيعا على أن يقرضه، فهذا فاسد ؛لنهي النبي صلی اللہ علیہ و سلم عن بيع وسلف ،ولنهيه صلی اللہ علیہ و سلم عن بيع وشرط. والمراد شرط فيه منفعة لأحد المتعاقدين، لا يقتضيه العقد ،وقد وجد ذلك.
                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                    (المبسوط:14/40)
قال الشیخ المفتی محمد تقی العثمانی حفظہ اللہ تعالی :فمن شروط صحۃ البیع أن یکون العقد منجزاً،فلا یجوز البیع المعلق علی شرط ،فإن الفقہاء اتفقو ا علی أن البیع من العقود التی لا تقبل التعلیق. ..وأما الشروط الأخری التی لا تدخل فی واحد من ھذہ الثلاثۃ ،فإن کان فیھا منفعۃ لأحد العقدین ،أو للمعقود علیہ ، فإنھا فاسدۃ،و یفسد بھا البیع ،مثل أن یشتری الحنطۃ علی أن یشتری الحنطۃ علی أن یطحنھا البائع ،أو یترکہ فی دارہ شہراً  ، أو ثوباًعلی أن یخیطہ ،فالبیع فاسد،کما فی فتح القدیر وغیرہ.
(فقہ البیوع:1/478،488)
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی :قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا ،فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي : سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به، وإن كان في الأصل فاسدا  ؛لكثرة التعامل، وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه، كدخول الحمام، وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة.
(الدرالمختار مع ردالمحتار:9/87)

عرفان حنیف

دارالافتاء،جامعۃالرشید،کراچی

  7 شعبان /1442ھخ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عرفان حنیف بن محمد حنیف

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب