021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ون لنک کمپنی میں ملازمت کا حکم
73407اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلملازمت کے احکام

سوال

ون لنک کمپنی میں ملازمت کا کیا حکم ہے؟ یہ کمپنی مختلف سہولیات فراہم کرتی ہے مثلاً

1.     ون لنک اے ٹی ایم: کمپنی اے ٹی ایم کارڈ رکھنے والے افراد کو یہ سہولت فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنی رقم کسی بھی اے ٹی ایم سے نکال سکتے ہیں چاہے اس کا تعلق ان کے اپنے بینک سے ہو یا کسی اور بینک سے۔ اس کے علاوہ وہ رقم کی منتقلی اور بیلنس معلوم کرنے کی خدمات بھی حاصل کر سکتے ہیں۔

2.     رقم منتقلی: کمپنی اپنے یوزرز کو دو مختلف بینکوں کے درمیان فوری رقم منتقلی کی سہولت دیتی ہے۔ عام حالات میں چیک کو کلئیر ہونے میں ایک سے دو دن کا وقت لگتا ہے جب کہ ون لنک کے ذریعے رقم فوری منتقل ہو جاتی ہے۔

3.     بل پیمنٹ سسٹم: اس میں کمپنی مختلف بل وصول کرنے والی کمپنیوں اور بینکوں کو بل وصولی کی سہولت فراہم کرتی ہے۔

4.     کارڈ مینجمنٹ، بائیو میٹرک اور دیگر سہولیات۔

سوال یہ ہے کہ اس کمپنی میں کام کرنے کا کیا حکم ہے کیوں کہ اس کی اکثر لین دین بذریعہ بینک ہوتی ہیں یا بینک سے متعلق ہوتی ہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریعت مطہرہ کا اصول یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی کوئی چیز دوسرے شخص کو کسی عمومی مقصد کے لیے کرائے پر دے، اس چیز کا جائز و ناجائز دونوں طرح کا استعمال ممکن ہو  اور کرائے پر لینے والا شخص اس کا غلط استعمال کرے تو اس کا گناہ کرائے پر دینے والے کو نہیں ہوتا۔ اس اصول کی روشنی میں چونکہ کمپنی کلائنٹس کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے یہ مشین اور سروسز بینکوں کو دیتی ہے (جن میں غیر سودی منافع نکالنا، اپنی اصل رقم نکالنا، رقم کی منتقلی، بل کی ادائیگی، کارڈ مینجمنٹ اور دیگر ایسی سہولیات شامل ہیں جن کا تعلق سود  یا سودی معاملات سے نہیں ہے) لہذا کمپنی گناہ گار نہیں ہوگی اور اس کی آمدن جائز ہوگی اگرچہ بینک اس مشین اور سروسز کو غلط کام (سودی رقم کی ادائیگی و منتقلی) میں استعمال کریں۔ نیز اس کمپنی میں ملازمت کرنا اور اس کی اجرت لینا بھی جائز ہے۔

حوالہ جات
"وإذا استأجر الذمي من المسلم دارا يسكنها فلا بأس بذلك، وإن شرب فيها الخمر أو عبد فيها الصليب أو أدخل فيها الخنازير ولم يلحق المسلم في ذلك بأس لأن المسلم لا يؤاجرها لذلك إنما آجرها للسكنى. كذا في المحيط."
(الفتاوی الھندیۃ، 4/450، ط: دار الفکر)

محمد اویس پراچہ     

دار الافتاء، جامعۃ الرشید

11/ ذو القعدہ 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس پراچہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب