021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عاقلہ بالغہ لڑکی کو نکاح پر مجبور کرنا
73414نکاح کا بیانولی اور کفاء ت ) برابری (کا بیان

سوال

مسئلہ یہ ہے کہ میں ایک عالمہ ہوں اور اللہ کے فضل سے شرعی پردے کی پابند ہوں،میرے والد صاحب کے ماموں اپنے بیٹے کے لیے میرا رشتہ مانگ رہے رہے ہیں،جبکہ ان کے گھر کا ماحول پردے کے لیے سازگار نہیں ہے،بلکہ وہ لوگ شرعی پردے کو ٹھیک ہی نہیں سمجھتے اور بسا اوقات مجھے اور میری بہنوں کو شرعی پردے کی وجہ سے طعن و تشنیع کا نشانہ بھی بناتے ہیں،مزید یہ کہ ان کا لڑکا بھی دیندار نہیں ہے،اسی بنا پر مجھے اس رشتہ پر اشکال ہے اور میں اس پرراضی نہیں ہوئی،کیونکہ ان کے گھر میں رہتے ہوئے شرعی پردہ کرنا اور اپنے علم کے مطابق دین پر عمل کرنا بظاہر ممکن نہیں ہے،میرے والد بھی میرے موقف کو درست سمجھتے ہیں،لیکن میری والدہ صاحبہ اور بھائی کا اصرار ہے کہ رشتہ ہر صورت وہی کرنا ہے،اس ساری صورت حال کے پیش نظر سوال یہ ہے کہ کیا عاقلہ بالغہ لڑکی کا نکاح اس کی مرضی کے بغیر کروانا درست ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جس طرح اولاد کے ذمے والدین کی مرضی اور خواہش کی رعایت رکھنا لازم ہے اسی طرح والدین کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ اولاد کے نکاح کے وقت اپنی اولاد کی پسند کا خیال رکھیں اور ان سے ان کی رائے معلوم کریں،اگر انہیں وہ رشتہ پسند نہ ہو تو شرعا والدین کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ انہیں کسی ایسی جگہ نکاح پر مجبور کریں جوانہیں ناپسند ہو ،خاص کر جب ناپسندیدگی کسی شرعی وجہ کی بناء پر ہو۔

نیز اگربالغ اولادکی رضامندی کے بغیر نکاح کر بھی دیا گیا اورلڑکے یا لڑکی نے قبول نہیں کیاتو وہ ان کی اجازت پر موقوف رہے گا،بغیر ان کی اجازت کے نکاح نافذ نہیں ہوگا،اس لیے مذکورہ صورت میں آپ کے والدین کا آپ پر اس رشتے کے حوالے زبردستی کرنا شرعا درست نہیں ہے۔

تاہم اس صورت میں دیکھ لیا جائے کہ اگر لڑکا باقی امور کے حوالے سے قابل قبول ہو اور پردہ کے ماحول کی ترغیب دے کر اس شرط کو قبول کرنے پر آمادہ ہو تو فوری انکار کے بجائے افہام و تفہیم سے ان کو قائل کرنے کی کوشش کی جائے،اگر وہ تیار ہوسکے تو رشتہ کیا جائے۔

حوالہ جات
"الدر المختار"(3/ 58):
"(ولا تجبر البالغة البكر على النكاح) لانقطاع الولاية بالبلوغ (فإن استأذنها هو) أي الولي وهو السنة (أو وكيله أو رسوله أو زوجها) وليها وأخبرها رسوله أو الفضولي عدل (فسكتت) عن رده مختارة (أو ضحكت غير مستهزئة أو تبسمت أو بكت بلا صوت) فلو بصوت لم يكن إذنا ولا ردا حتى لو رضيت بعده انعقد سراج وغيره، فما في الوقاية والملتقى فيه نظر (فهو إذن)".
قال ابن عابدين رحمه الله:"(قوله وهو السنة) بأن يقول لها قبل النكاح:فلان يخطبك أويذكرك فسكتت، وإن زوجها بغير استئمار فقد أخطأ السنة وتوقف على رضاها،بحر عن المحيط".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

12/ذی قعدہ1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب