021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تین بطن کا مناسخہ ﴿تین پشتوں کی میراث کامسئلہ﴾
73464میراث کے مسائلمناسخہ کے احکام

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

 میرے والد حاجی غلام حسین صدیقی کا انتقال ہوا ،موت کے وقت ان کے درج ذیل ورثہ زندہ تھے:

 بیوی انوری بانو، بیٹا نویداحمدصدیقی ،بیٹی شگفتہ جبین ۔

اس کے بعد انوری بانو فوت ہوگئی اورموت کے وقت ان کے درج ذیل ورثہ زندہ تھے:

بیٹا نویداحمد صدیقی ،بیٹی شگفتہ جبین ۔

اس کے بعد شگفتہ جبین کا  انتقال  ہوا اورانتقال کے وقت ان کے درج ذیل ورثہ زندہ تھے:

خاوندسلیم اخترصدیقی، بھائی نوید احمد صدیقی ۔

برائےکرم یہ وضاحت فرمائیں کہ ان سب میں میراث کیسے تقسیم ہوگی ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

          صورتِ مسئولہ میں چونکہ تین لوگ  یکے بعددیگرےفوت ہوئے ہیں اور ان میں سے بعض بعض کے وارث ہیں، لہذاموجودہ صورت میں مرحومین  کے مال میں سے جن جن ورثاء کوجو جوحصہ ملے گا،آسانی کے لیے ذیل میں اس کاجدول ملاحظہ ہو۔

مورث اعلی حاجی غلام حسین صدیقی کل مال100

دیگرتفصیل

فیصدی حصہ

مورث اعلی سے رشتہ

زندہ ورثہ

نمبر شمار

والدغلام حسین،والدہ انوری بانو اوربہن شگفتہ جبین سے

83. ٪34

بیٹا

نوید احمد صدیقی

1

صرف بیوی شگفتہ جبین سے

16. ٪66

داماد

سلیم اخترصدیقی

2

 

100٪

 

ٹوٹل:

 

واضح رہے کہ  یکے بعد دیگرے ورثہ کے فوت ہونے کی صورت میں دوسری میت سے آخر تک کے اموات کوپہلی میت سے بھی ملتاہے اورعام طورپر فوت ہونے کے وقت ان  کی ذاتی ملکیت میں بھی کچھ نہ کچھ مال ہوتاہے تو جب ان کا مال تقسیم ہوتوپہلی میت سے ملنے والے مال کے ساتھ  اس کے دیگرذاتی اموال کو بھی ملایاجاتاہے جو بوقت موت ان کی ملکیت میں ہوتاہے لہذا مسئولہ صورت میں دوسری میت انوری بانو سے لیکر آخری میت شگفتہ جبین تک جتنے ورثہ فوت ہوئےہیں ، ان کی میراث تقسیم کرتے وقت دونوں مالوں(پہلی میت سے ملنے والااوراپنا) کو جمع کرلیا جائےگا،اورپھر کل مال جتنا بھی ہوجائے اس کوورثہ میں تقسیم کیاجائے گا، تقسیم کا طریقہ کار وہی ہوگاجو اوپر مذکورہوا ۔

حوالہ جات
قال في كنز الدقائق :
"يبدأ من تركة الميّت بتجهيزه ثمّ ديونه ثمّ وصيّته ثمّ تقسم بين ورثته،وهم:ذو فرضٍ أي ذو سهمٍ مقدّرٍ..."  (ص:696, المكتبة الشاملة)
قال في الفتاوى الهندية:
"وهوأن يموت بعض الورثةقبل قسمة التركة كذا في محيط السرخسي وإذا مات الرجل ،ولم تقسم تركته
 حتى مات بعض ورثته ......فإن كانت ورثة الميت هم ورثة الميت الأول،ولا تغير في القسمة تقسم قسمة واحدة ؛ لأنه لا فائدة في تكرار القسمة بيانه إذا مات وترك بنين وبنات ثم مات أحد البنين أو إحدى البنات ولا وارث له سوى الإخوة والأخوات قسمت التركة بين الباقين على صفة واحدة للذكر مثل حظ الأنثيين فيكتفي بقسمة واحدة بينهم وأما إذا كان في ورثة الميت الثاني من لم يكن وارثا للميت الأول فإنه تقسم تركة الميت الأول ، أولا ليتبين نصيب الثاني ثم تقسم تركة الميت الثاني بين ورثته فإن كان يستقيم قسمة نصيبه بين ورثته من غير كسر فلا حاجة إلى الضرب."     (ج:51,ص:412, المكتبة الشاملة)
قال اللَّه تعالى في القرأن الكريم:
{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ ......... وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ...... }             [النساء: 12, 11]

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

   دارالافتاء جامعۃ الرشید

13/11/1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب