021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
خاوندکےظلم،زیادتی اورنفقہ کی عدم ادا ئیگی کی وجہ سےبیوی کافسخِ نکاح کا مطالبہ کرنا
73732طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

گزارش ہے کہ میری شادی آج سے تقریباًدس سال پہلے میرے والدین نے محمد ریبال سے کردی تھی ،میرے والدین سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے اس آدمی کے بارے میں کوئی تحقیق نہیں کی اورمعلومات نہیں لی، حالانکہ یہ شخص ہماری برادری کا نہیں تھا اورنہ ہی اس سے ہماری کوئی رشتہ داری تھی ،اس بناءپرمعلومات لیناضروری تھی،مگرنہیں لی گئیں،میری شادی کو اب دس سال گزرچکے ہیں اورمیرے تین بچے ہوگئے ہیں دو بیٹے اوریک بیٹی لیکن میں ان دس سالوں سے والدین کی غلطی کی سزا بھگت رہی ہوں ،مختصرحال بیان کرتی ہوں اورحلفاً بیان کرتی ہوں کہ اس میں کسی قسم کا جھوٹ نہیں ہے ۔

میرا شوہر شادی کےفوراًبعد میرے ماں باپ کی طرف سے دیا ہوا تھوڑا بہت سونے کا زیورچوری کرکے بھاگ گیا اورکچھ عرصہ بعد کھاپی کرواپس آگیا ،پھر اس نے مجھے اورمیرے باپ کو جھانسہ دیااورہماری زرعی زمین گروی رکھواکرتقریباًچھ لاکھ روپے میرے ماں باپ سے لئے جو آج تک واپس نہیں کئے ،اسی طرح یہ احمد پورشرقیہ میں اورلوگوں کے ساتھ بھی فراڈ کرتاتھا اورتقریباً 16لاکھ روپے کا مقروض تھا ،قرض داروں کے ڈر کی وجہ سے یہ کراچی بھاگ آیا اورمجھے بھی ساتھ لے آیا ،یہاں یہ فقیرہ گوٹھ میں رہتاہے،ایک کمرے کا مکان ہے اوریہ سائیکل پر آئس کریم بیچتاہے ،گھر میں بیوی بچوں کا خرچہ تو بہت دور کی بات ہے ،یہ مکان کا کرایہ بھی نہیں دے سکتاہے ،ان حالات کی وجہ سے یہ ہروقت پریشان رہتاہے اورپھر غصہ بیوی بچوں پر نکالتاہے ،لہذ ایہ آئے دن مجھے صرف مارتاہی نہیں بلکہ بری طرح تشدد کرتاہے ،اہلِ محلہ اورپڑوسیوں نے اس کو کئی مرتبہ سمجھایا مگریہ باز نہیں آتااورمجھ پر بدکاری اوربدچلنی کی تہمت لگاکر مجھے اورمیرےایک سالہ بچی کو جان سے ماردینے کی دھمکیاں دیتاہے ،میں اس کا ظلم کئی سالوں سے برداشت کررہی ہوں صرف اس لیے کہ میں تین بچوں کولیکرکہاں جاؤںگی ؟میرے ماں باپ غریب ہیں وہ مجھے سہارا نہیں دے سکتے اورمیں خود بھی ان پر بوجھ نہیں بنناچاہتی ،لیکن اب میں اس ظالم انسان کا ظلم وتشددبرداشت نہیں کرسکتی ،اس کے ظلم وتشددسے اب میرا جسم اورمیری ہڈیاں درد کرتی ہیں اورمیں انتہائی کمزورہوگئی ہوں، لہذا اب میں نے فیصلہ کرلیاہے کہ اس ذلت کی زندگی سےنجات حاصل کرلوں ،میں نے اپنے ماں باپ اوردوسرے رشتہ داروں سےبھی مشورہ کیاہے، سب نے ان حالات کے پیشِ نظرمجھے یہی مشورہ دیا ہے کہ اس ظالم انسان سے علیحدگی اختیار کرلو،لہذا میں نے اس سے بات کی کہ آپ مجھے طلاق دیدو،جب میں بدچلن اوربدکارہوں تو مجھے آزاد کردو،اس پر وہ آگ بگولہ ہوگیا اورمجھے قتل کرنے کی دھمکیاں دی ،ڈراورخوف کی وجہ سے میں یہاں کراچی میں اپنے سگے ماموں کے گھر آگئی ہوں اوربچے بھی میرے ساتھ ہیں ،لہذا اب میں بھیک مانگ کر تو گزارہ کرلوں گی مگر اس ظالم انسان کے پاس ہرگز نہیں جاؤں گی ،آپ سے گزارش ہے کہ مندرجہ بالاحالات کو سامنے رکھتے ہوئے شریعت کی رو سے مجھے مشورہ دیں کہ میں کیا کروں ؟ میں عدالت کے ذریعے خلع لینا چاہتی ہوں ،آپ ہماری رہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ احادیث شریفہ میں بلاوجہ طلاق کا مطالبہ کرنے والی عورت کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اس کے لئے جنت کی خوشبوبھی  حرام ہے،تو اگر سوال میں مذکورحالات حقیقت پر مبنی نہ ہوں تو آپ ہر گز طلاق کا مطالبہ  نہ کریں بالخصوص جبکہ آپ کے والدین بھی آپ کا بوجھ اٹھانے کے متحمل نہیں ہیں،نیز آج کل کے معاشرے میں طلاق یافتہ عورت کواچھی نگاہ سے نہیں دیکھاجاتا، اس کوآگے شادی میں بھی مشکلات ہوتی ہیں،عزت اورروزی کے حوالے سےبھی  مشکل کا سامنا کرنا پڑتاہے، لہذا اگرآپ کا کسی طرح مذکورہ شوہرکے ساتھ گزارہ ہوسکتاہے تو سنجیدہ لوگوں کودرمیان میں ڈالکرمعاملہ کو رفع دفع کریں اوراپنا گھر نہ اجاڑیں ورنہ پھر پچتاوہ ہوگا۔تاہم اگر آپ واقعةً مظلوم ہیں اورسوال میں ذکرکردہ صورتِ حال  بالکل صحیح ہے اوراس میں کسی قسم کی غلط بیانی نہیں کی گئی توپھر آپ جیسے مظلوم عورت کے لیے شریعت میں یہ سہولت موجود ہے کہ آپ اپنا دعوی قریبی عدالت میں پیش کریں، اورعدالت میں گواہوں سے اپنادعوی ثابت کریں پھر عدالت فریقین کے بیان سن کر اگر اس نتیجے پر پہنچے کہ آپ مظلوم ہیں، اوآپ کےساتھ شوہر یقیناًظالمانہ برتاؤ کررہا ہے،اورنفقہ نہیں دے رہاہے توپھر عدالت آپ جیسی مظلوم عورت کا اس کے شوہر سے نفقہ نہ دینے کی وجہ سےنکاح فسخ کرسکتی ہے؛ لہٰذا آپ اپنا معاملہ عدالت کے روبرو پیش کریں اور اس کے مطابق عمل کریں۔ (الحیلۃ الناجزۃبتصرف)

واضح رہے کہ موجودہ زمانے میں عدالتوں سے جاری ہونے والی خلع کی اکثر ڈگریاں غیر شرعی بینادوں پر ہونے کی وجہ سے شرعاً غیر موثر ہوتی ہیں اوران سے نکاح ختم نہیں ہوتا،لہذا جب آپ  ضرورت کے وقت عدالت سے خلع لیں تو کسی شرعی بنیاد مثلاًنفقہ نہ ملنے کی وجہ سے دعوی دائرکریں اوراپنے اس دعوی کو شرعی گواہوں (دو دیانتدارمرد یا ایک مرد اوردو عورتوں کی گواہی سے ثابت بھی کریں)ورنہ غیر شرعی بنیاداوربغیرشرعی گواہوں کے ایک فریق کے بنان حلفی پر لیاجانے والا عدالتی فیصلہ شرعاًغیرمعتبرہوگا اوراس سے نکاح ختم نہیں ہوگا۔

حوالہ جات
عن ثوبان رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أیما امرأۃ سألت زوجہا طلاقاً في غیر ما بأس فحرام علیہا رائحۃ الجنۃ۔ (سنن أبي داؤد ۱؍۳۰۳ رقم: ۲۲۲۶، سنن الترمذي رقم: ۱۱۸۷، مسند أحمد ۵؍۲۷۷، مشکاۃ المصابیح ۲۸۳ رقم: ۳۲۷۹، المستدرک للحاکم ۲؍۲۱۸ رقم: ۲۸۰۹، السنن الکبریٰ للبیہقي ۷؍۳۱۶)
سنن الترمذي - (ج 2 / ص 329)
عن ثوبان ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (المختلعات هن المنافقات) هذا حديث غريب من هذا
الوجه وليس إسناده بالقوى . وروى عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال : (أيما امرأة اختلعت من زوجها من غير بأس ، لم ترح رائحة الجنة) 1199 حدثنا بذلك محمد بن بشار . حدثنا عبد الوهاب الثقفى حدثنا أيوب ،عن أبى قلابة ، عمن حدثه ، عن ثوبان : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : (أيما امرأة سألت زوجها طلاقا من غير باس ، فحرام عليها رائحة الجنة) وهذا حديث حسن .
قال اللّٰہ تعالیٰ:
 {فَاِنْ خِفْتُمْ اَنْ لَا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ فَلا جُنَاحَ عَلَیْہِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ} (البقرۃ: ۲۲۹)قد صرح في الخانیۃ: بأنہا لو أبرأتہ عمالہا علیہ علی أن یطلقہا، فإن طلقہا جازت البراء ۃ وإلا فلا۔ (شامي ۵؍۱۰۷ زکریا، ۳؍۴۵۴)
وفی الھندیۃ (۴۸۸/۱):
إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية۔
وفی الشامیۃ (۴۴۱/۳):
قوله ( للشقاق ) أي لوجود الشقاق وهو الاختلاف والتخاصم  وفي القهستاني عن شرح الطحاوي السنة إذا وقع بين الزوجين اختلاف أن يجتمع أهلهما ليصلحوا بينهما فإن لم يصطلحا جاز الطلاق والخلع اهـ ط وهذا هو الحكم المذكور في الآية وقد أوضح الكلام عليه في الفتح آخر الباب ۔
وفی البحرالرائق  کتاب الطلاق( ج ۳ ص ۲۵۳)
واما سبعہ فالحاجۃ الی الخلاص عند تبائن الا خلا ق و عروض البغضاء المو جبۃ عدم اقامۃ حدود اﷲ الخ ویکون واجبااذا فات الا مساک بالمعروف .
وفي الہدایۃ:
وإن تشاق الزوجان وخافا أن لا یقیما حدود اللہ، فلا بأس بأن تفتدي نفسہا منہ بمال یخلع بہ۔ لقولہ تعالیٰ: فلا جناح علیہما فیما افتدت بہ، فإذا فعل ذٰلک وقع بالخلع تطلیقۃ بائنۃ ولزمہا المال، …وإن طلقہا علی مال، فقبلت وقع الطلاق ولزمہا المال۔ (ہدایۃ، کتاب الطلاق، باب الخلع، اشرفی دیوبند ۲/۴۰۴)

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

۲٦/١۲/۱۴۴۲ھ
 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب