021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دادا کی میراث میں پوتے کو حصہ ملے گا یا نہیں؟
74274میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ہمارے والد عبد الجلیل کے دو بیٹے تھے۔ مسکین شاہ اور صفی اللہ۔ پہلے مسکین شاہ وفات پاگئے، اس کے بعد عبد الجلیل وفات پاگئے۔ عبد الجلیل کے انتقال کے وقت اس کے ورثا میں اس کی بیوہ، ایک بیٹا صفی اللہ (سائل) اور دو بیٹیاں موجود تھیں، اس کے والدین، دادا، دادی اور نانی میں سے کوئی زندہ نہیں تھا۔ پھر ہماری والدہ کا بھی انتقال ہوا، والدہ کے انتقال کے وقت اس کے والدین، دادا، دادی، اور نانی میں سے کوئی زندہ نہیں تھا، میں اور میری دو بہنیں تھیں۔  

 اب مسکین شاہ کا بیٹا اپنے دادا عبد الجلیل کی میراث میں حصے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ براہِ کرم شریعت کی روشنی میں فتویٰ درکار ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر کسی شخص کا بیٹا موجود ہو تو اس کے پوتے کو اس کی میراث میں شرعا حصہ نہیں ملتا۔  لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جب مسکین شاہ کا انتقال اپنے والد عبد الجلیل مرحوم سے پہلے ہوا تھا ، اور عبد الجلیل مرحوم کا بیٹا صفی اللہ موجود ہے تو پوتا (مسکین شاہ کا بیٹا) اپنے دادا کی میراث میں حصے کا مطالبہ نہیں کرسکتا، شرعا اسے کچھ نہیں ملے گا۔ البتہ اگر عبد الجلیل مرحوم کے ورثا اپنی خوشی سے اپنے اپنے حصے میں سے اس کو کچھ دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں، ان کو اس کا ثواب ملے گا۔  

عبد الجلیل مرحوم کی میراث تقسیم کرنے سے پہلے دیکھا جائے اگر حقوقِ متقدمہ علی الارث ( یعنی اس کی تجہیز و تکفین کے اخراجات، کسی کا قرض، اور اس کے بعد بچنے والے مال کی ایک تہائی کی حد تک وصیت) ہوں تو انہیں ادا کیا جائے۔ اس کے بعد جو کچھ بچ جائے، اس کو کل چار (4) حصوں میں تقسیم کر کے بیٹے یعنی صفی اللہ کو دو (2) حصے دئیے جائیں، اور دو بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو ایک، ایک (1، 1) حصہ دیا جائے۔

حوالہ جات
القرآن الکریم:
{ يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ} [النساء: 11].
صحيح البخاري، ط:قدیمی (2/ 997):
باب ميراث ابن الابن إذا لم يكن ابن:
قال زيد ولد الأبناء بمنزلة الولد إذا لم يكن دونهم ولد، ذكرهم كذكرهم وأنثاهم كأنثاهم، يرثون كما يرثون ويحجبون كما يحجبون، ولا يرث ولد الابن مع الابن.  
الفتاوى الهندية (6/ 448):
فإن اجتمع أولاد الصلب وأولاد الابن، فإن كان في أولاد الصلب ذكر فلا شيء لأولاد الابن ذكورا كانوا أو إناثا أو مختلطين.
السراجی فی المیراث (ص5):
قال علماؤنا رحمهم الله  تعالی: تتعلق بتركة الميت حقوق أربعة مرتبة: الأول يبدأ بتكفينه وتجهيزه من غیر تبذیر ولاتقتیر، ثم تقضی دیونه  من جمیع ما بقی من ماله،  ثم تنفذ وصایاه من ثلث ما بقی بعد الدین، ثم یقسم الباقی بین ورثته بالکتاب والسنة وإجماع الأمة.
السراجی فی المیراث(ص 38-36):  
العصبات النسبیة ثلاثة:  عصبة بنفسه، وعصبة بغیره، و عصبة مع غیره. أما العصبة بنفسه فکل ذکر لا تدخل فی نسبته إلی المیت أنثی، وهم أربعة أصناف: جزء المیت، و أصله، و جزء  أبیه، و جزء جده، الأقرب فالأقرب، یرجحون بقرب الدرجة، أعنی أولاهم بالمیراث جزء المیت أی البنون ثم بنوهم و إن سفلوا…………… و أما العصبة بغیره فأربع من النسوة، و هن اللاتی فرضهن النصف و الثلثان، یصرن عصبة بإخوتهن کما ذکرنا فی حالاتهن.  

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

21/صفر المظفر/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب